منہج غزالی کے ناسمجھ ناقدین
عبداللہ عمر
چند ہفتہ قبل عظمی رومی صاحبہ کی ایک کلپ کافی وائرل ہوئی تھی ۔ جسمیں موصوفہ نے امام غزالی رحمہ اللہ پر مختلف قسم کے الزامات دھرے تھے ۔جنکا خلاصہ یہ تھا :
(1) بنیادی اعتراض یہ تھا معجزہ اور علت معلول کی بحث سے متعلق امام غزالی رح کی تحقیق نے اسلامی دنیا میں علم طبعیات میں ہونے والی پیش رفت روک دی تھی اور سائنسی تحقیقات کو سبوتاژ کردیا تھا ۔
(2) امام غزالی رحمہ اللہ کے نظریہ کو اسلامی دنیا میں طاقت کے زور پر نافذ کیا گیا ۔
(3) معجزہ سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی تحقیق قدیم یا جدید سائنسی یا فلسفیانہ پیمانوں کے مطابق غلط تھی ۔
ہم تیسرے امر پر اگلی قسط میں تفصیلات کے ساتھ عرض کریں گے ۔ ابھی پہلے دو امر کی حقیقت قارئین کے نظر کرنا چاہتے ہیں ۔
امام غزالی رحمہ اللہ پر یہ سراسر الزام ہے کہ انکی تحقیات علم الطبعیات کے خلاف تھیں ۔ امام صاحب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب میں اس امر کا صراحت کے ساتھ اقرار کیا ہے ،ملاحظہ کیجیے:
’’ہذا الفن ونظائرہ ہو الذی ینبغی ان یظہر فساد مذہبہم فیہ دون ما عداہ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔صفحہ۸۱)
یعنی ’’فن الہیات اور اس کی امثال ہی فلسفہ کا وہ شعبہ ہیں جہاں ان کے مذہب کی تردید مقصود ہے،فلسفہ کے کسی اور فن یا شعبہ (ریاضی، طب، منطق، سوشل سائنسز وغیرہ) پر تنقید کرنا ہمیں مطلوب نہیں۔‘‘
اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ دیکھیں:
’’علومہم اربعۃ اقسام: الریاضیات والالہیات والمنطقیات والطبیعیات، اما الریاضیات۔۔۔ فلا غرض لنا فی الاشتغال بایرادہ، واما الالہیات فاکثر عقائدہم فیہا علی خلاف الحق والصواب نادر فیہا، واما المنطقیات ۔۔۔ فیخالفون اہل الحق فیہا بالاصطلاحات والایرادات دون المعانی والمقاصد اذ غرضہا تہذیب طرق الاستدلالات، واما الطبیعیات فالحق فیہا مشوب بالباطل‘‘ (مقاصد الفلاسفہ صفحہ۱۰،۱۱)
یعنی ’’فلسفیوں کے نظریاتی علوم کے چار بنیادی شعبے ہیں، ایک تو ریاضی ہے جس کو موضوعِ بحث بنانا مطلوب نہیں، دوسرا الہیات ہے ، اس میں ان کے اکثر عقائد راہِ راست سے ہٹے ہوئے ہیں، تیسرا منطق ہے جس میں اہلِ حق کے ساتھ ان کا اختلاف صرف اصطلاح میں ہے، اصل مفاہیم میں نہیں ، چوتھا طبیعیات ہے جس میں الٹی سیدھی، دونوں طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘
تہافت التہافت کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر بھی یہ بات بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ غزالی کی گفتگو کا محور یا تو الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں، یا پھر وہ فلسفیوں کے
اس زعم کو رد کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی الہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔اپنی کتاب میں ان کے صرف یہی دو اہداف ہیں۔ دوسروں کی بنائی ہوئی فہرستوں کو بھی چھوڑ دیجئے، وہ خود ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کے مقدمہ میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
’’فہرست المسائل التی اظہرنا تناقض مذہبہم فیہا فی ہذا الکتاب‘‘ (صفحہ۸۶)
یعنی ’’ان مسائل کی فہرست جن کے اندر فلسفیوں فلسفیوں کے مذہب کے ضعف کو ہم نے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے خودبیس مسائل کی فہرست دی ہے۔
ان مسائل پہ ایک سرسری نظر بھی ڈال لی جائے تو اندازاہ ہوجائے گا کہ ان کے اہداف صرف یہی دو ہیں۔ وہ الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرتے ہیں کہ ان کی الٰہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔
اب خود بتائیے کہ کیا غزالی سائنس کے منکر ہیں؟ اسلام کی حقانیت دو اور دو ، چار کی طرح واضح ہے کیونکہ اللہ کا وجود اس کائنات کا سب سے بدیہی سچ ہے اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وراست گوئی کو آج کے غیر متعصب ’’نان مسلم‘‘ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام کے اثبات کے لئے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فلسفیانہ دلیل کی بنا پر ایسے بدیہی سچ پہ تنقید روا ہے۔ کجا یہ کہ اسلام پہ یہ تنقید خود کو مسلمان کہتے ہوئے (یعنی اسلام کے نام پر) ہی کی جائے۔
فلسفہ غزالی کا اصل اختلاف کس سے تھا؟؟؟
غزالی نے فلسفیوں پر کوئی ایسا جبر نہیں کیا کہ وہ فلسفہ نہ پڑھیں یا سائنسی تحقیقات کرنا چھوڑ دیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ کہا کہ اسلام اور سائنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی کے پیروکاروں نے ایسے فلسفیوں اور سائنس دانوں پر کبھی تنقید نہیں کی جنہوں نے خود کو سائنسی تجربات اور ریاضی وطب جیسے مفید، کارآمد اور اوریجنل سائنسی علوم تک محدود رکھا۔ چنانچہ ہمارے علم کے مطابق الخوارزمی (الجبرا کے بانی)، ابن الہیثم (ماہرِ طب)، حکیم یحییٰ بن ابی منصور، ابو ریحان البیرونی (ماہرین جیومٹری)، مسلم بن فراس (پہلا ہوا باز)، عباس بن سعید جوہری اور سند بن علی (آلاتِ رصد بنانے کے ماہر)، بنو موسیٰ بن شاکر (گھڑی جیسے متحرک آلات بنانے کے ماہر)، محمد بن زکریا رازی (ماہر کیمیا)، حکیم ابو محمد العدلی القائنی، ابو سہل ویجن بن رستم کوہی اور حکیم ابو الوفاء بوزجانی (ماہرین ریاضی) جیسے لوگوں کو کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکماء اور سائنس دانوں میں اکثر لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے خالصتاً ریاضی وطب جیسے حقیقی اور تجرباتی علوم تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور اس میدان میں خدمات انجام دیں، لیکن ان کی زیادہ شہرت نہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی کے بقول’’ صرف مامون الرشید کے زمانہ تک مسلمانوں میں متعدد ریاضی دان پیدا ہوئے اور مشہور ہوئے، مگر فلسفی صرف کندی پیدا ہوا۔ ‘‘ (حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۱۰۵)لیکن ان ریاضی دانوں اور جینوئن سائنس دانوں کے نہ تو آج نام زیادہ معروف ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ان کے احوال زیادہ محفوظ ہیں، وجہ وہی کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ لوگ اپنا سا کام کرتے رہتے تھے، متنازعہ امور میں یا مذہب کے معاملہ میں ٹانگ اڑا کر انہوں نے کبھی مشہور ہونے کی کوشش نہیں کی۔ دیکھئے، بنو موسیٰ بن شاکر، حکیم یحییٰ بن منصور ، عباس بن سعید وغیرہ کے نام سے کون واقف ہے؟ صرف الخوارزمی کا نام جانا پہچانا ہے، مگر اس کے حالات بھی آدھے صفحہ سے زیادہ نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں کو بھی اگرچہ بعض اوقات فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں ریاضی وطب جیسے علوم بھی فلسفہ کا ایک شعبہ سمجھے جاتے تھے، لیکن فی الجملہ ان کو فلسفی کی بجائے ’’حکیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلسفی کا لفظ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جنہوں نے خود کو ان جینوئن علوم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ مذہبیات اور مابعد الطبیعیات میں ٹانگ اڑا کر اس میں بھی نئی نئی ’’ایجادات‘‘ پیش کرنے کی کوشش کی یا دوسروں کی ’’ایجادات‘‘ کو رد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لطفی جمعہ کی ’’تاریخ فلاسفۃ الاسلام‘‘ میں صرف ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے، جینوئن حکماء اور سائنس دانوں کا نہیں۔
غزالی کی تنقید کا رخ انہی ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنے متنازعہ ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان میں سے بعض نے اپنی الہیات اور مابعد الطبیعیات (Metaphysics)کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی۔ان فلسفیوں نے اپنے علمِ الہیات میں خداوند تعالی کے بارہ میں یہ عجیب وغریب دعوی کیا کہ وہ اپنی مخلوق کی کلیات کو اور ان پر طاری ہونے والے جزوی حالات کو جانتا ہے یعنی یہ کہ میری مخلوق میں انسان ہے، چرند ہے، پرند ہے،ان میں کس نے کب پیدا ہونا اور کب مرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ ان جزئیات میں آنے والے موقع بموقع تغیر سے بے خبر اور غافل ہے، یعنی انسانوں میں اس وقت کتنے انسان موجود ہیں ، کون پیدا ہورہا ہے؟ کون مررہا ہے؟کون سا درخت پھل رہا ہے اور کون سا درخت سوکھ رہا ہے؟ کونسا ہوچکا ہے اور کس نے ہونا ہے؟ اگر کسی کو یہ ’’منطق‘‘ ناقابلِ فہم اور عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے تو وہ فلسفیوں کا سر پیٹے، ہمارا نہیں۔ یہ حرف بحرف انہی کا عقیدہ ہے۔ فلسفہ کے مشور و متداول متن ’’ہدایۃ الحکمۃ‘ ‘ کے مصنف اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الواجب لذاتہ عالم بالجزئیات المتغیرۃ علی وجہ کلی۔۔۔ لکن لا یدرکہا مع تغیرہا‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۲) اہل سنت کے ہاں مشہور یہ رہا ہے کہ فلسفی سرے سے یہ ہی نہیں مانتے کہ اللہ کی ذات کو جزئیات کا علم حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ علامہ شبلی نے بھی یہ وضاحت کی ہے۔ (علم الکلام۔ جلد اول،صفحہ۱۲۹) صحیح بات یہی ہے کہ وہ اسے مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی، یعنی مانتے ہیں لیکن اپنی عجیب وغریب منطق کے ساتھ۔ تہافت التہافت کے محقق ڈاکٹر سلیمان دنیا نے بوعلی کی سینا کی تصنیف ’’الشفاء‘‘ سے عبارت نقل کرکے دعوی کیا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے بارہ میں جزئیات سے بالکل ناواقف ہونے کا قائل تھا۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸)لیکن میری سمجھ سے یہ بالا تر ہے کیونکہ اس کی محولہ عبارت میں ہی الفاظ یہ ہیں: ’’لایجوز ان یکون عاقلا لہذہ المتغیرات مع تغیرہا من حیث ہی متغیرۃ عقلا زمانیا مشخصا (بل علی نحو آخر نبینہ) ۔۔۔واجب الوجود انما یعقل کل شیء علی نحو کلی۔۔۔‘‘ (تہافت التہافت۔صفحہ۵۰) مزید سنئے، اسی طرح ان فلسفیوں نے یہ دعوی کیا کہ خدا ایک بے دست وپا قسم کی قوت (جسے وہ ’’عقل ‘‘ کہتے ہیں) کا نام ہے جس سے ایک اور قوت نے جنم لیا، اس سے پھر ایک اور قوت نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں قوت اور ’’عقل‘‘ تک پہنچا۔ اس دسویں عقل اور قوت سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔ اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الصادر من المبدء الاول انما ہو الواحد لانہ بسیط والبسیط لا یصدر عنہ الا الواحد کمامر‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۵)
یہ باتیں دلیل کی رو سے کتنی بے سروپا اور احمقانہ ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر فی الحال صرف یہ دیکھئے کہ ایک آدمی یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے اسلام ہی کے نام پر کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا حق پہنچتا ہے اور اگر کوئی غزالی اس پہ تنقید کرے تو کیا یہ بلاجواز ہے؟ بات بڑی واضح ہے کہ ان ہفوات کو فلسفی بے شک اپنے ’’علم الہیات‘‘ کا جزو بنائیں کیونکہ دین میں جبر نہیں، مگر انہیں اس بات کاکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی کریں اور یوں مسلمانوں کے لئے تشویش، انتشار اور افتراق کا باعث بنیں۔ طرہ یہ کہ ’’مسلم‘‘ فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی اور منطق کی طرح حتمی اور شبہات سے پاک بھی سمجھتے تھے، مگر ان کا دعوی تھا کہ اس کے دلائل کو سمجھنا صرف فلسفیوں کے لیے ممکن ہے۔
غزالی یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فلسفہ اور سائنس کے صرف کارآمد علوم کو اختیار کریں اور مذہب کے دائرہ سے ان کو الگ رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر اسلام کو بدلنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک حکمت وفلسفہ اور سائنس کے تمام اجزاء قابلِ اعتراض نہیں، بلکہ صرف وہ حصہ جو اسلام کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہے ۔
(نیز اس مضمون کی تحقیق میں اکثر اقتباسات غزالی اور ابن رشد کے قضیہ کے مصنف مولانا عبداللہ شارق کے مضامین سے ماخوذ ہیں )
جاری ہے