اسلام و شریعت الہیٰ فائدہ دیتی نظر کیوں نہیں آتی؟
نمازیں , عبادات , پورے مہینے ۳۰ روزے رکھ کے بھی ہماری زندگیوں اور معاشروں میں وعدہ کی گئی الہیٰ رحمتیں برکتیں کیوں نہیں …. بے عمل زندگی اور غلطی کیا??? //
اللہ کے احکامات , اصول اور ضابطہ جیسے خدا رحمان اور رحیم ہے کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا, ہر انسان کا رزق خدا کے ذمہ ہے, خدا کی رحمتیں اور برکات اور ان جیسی بہت سی باتیں ان معاشروں پہ لاگو ہیں جہاں اللہ کے مقرر کردہ Devine laws/ شریعتِ الہیٰ کو سو فیصد مکمل Follow کیا جائے. آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ خدا کے نظام میں نہیں چلتا! یہ موتیوں کے ہار یا تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں جڑا ہو منسلک نظام ہے جو صرف اس ہی صورت میں انسان اور معاشروں کو فائیدہ دیتا ہے جب اسے مکمل Follow کیا جائے!
جب انسان اپنے اغراض, مقاصد, حرس, ہوس, لالچ اور ذاتی انفرادی فائیدوں کے لیے اس حار اور تسبیح کے دانوں کو توڑ ڈالتا ہے تو سب بے وقعت اور بے فائیدہ ہو کے رہ جایا کرتا ہے!
نماز روزہ اور رسوماتی دین تو اللہ کے بنائے طریقوں پہ انجام دے لیا جائے لیکن جب ملکی نظامِ حکومت, پولیس کا نظام ,نظام عدلیہ, شادی بیاہ اور تقریبات , دوسرے تمام نظام وغیرہ Etc.. دوسرے دنیاوی نظاموں کے تحت سب چلایا اور انجام دیا جائے. تو ایسے میں ایک ہمارے جیسا عبرتناک معاشرہ ہی وجود میں آتا ہے. سیدھی اور Common sense کی بات ہے کہ جب تک دین / شریعت الہیٰ / Devine laws رسومات سے نکل کے عملی زندگی میں Practice نہیں ہونگے تب تک آپ کو انسانی اجتماعی و انفرادی زندگی میں رحمتیں اور برکتیں کہاں سے اور کیسے نظر آئیں گی!
آپ کو ایک مکمل Package آفر کیا گیا اور اس سے ملنے والی مکمل Services کے بارے میں بتا بھی دیا گیا, آپ نے اس Package کو چھوڑ کے خود ہی محدود سروسز والا پیکج منتخب کر لیا, لیکن جی فائیدے اور سروسز اس پہلے والے مکمل پیکج کی ہی اس میں بھی آپ کو چاہیے! نہیں جی ایسا نہیں ہوا کرتا, کمپنی کے بھی اپنے اصول , ضابطے اور Business strategies ہوا کرتی ہیں!
انفرادی شخصیات اور مکمل معاشرے اگر اس خدائی حکم کو مکمل پورا کرتے اور پھر بھی ہم ان ہی بد حالیوں کا شکار رہتے تب جا کے بھی شکوہ تو کوئی بنتا بھی تھا…
اس الہیٰ اصول اور ضابطہ کو سمجھ لیجیے آپ کو ہر بات کا جواب مل جائے کا کہ خدا نے فرمایا تو کچھ ہے لیکن ہمارے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کیوں ہے. مکمل قصوروار ہم خود ہیں! کیا ہم نے اپنے حصّے کا عمل پورا کیا ہے!
Part: 2
// ترقی یافتہ معاشرہ / Developed society.
کیا Western سوسائیٹی بھی اس معیار پہ پوری ہے..?? //
اسلام (شریعتِ الہیٰ The devine laws) کے مطابق ترقی یافتہ سوسائٹی اور معاشرہ وہ نہیں جسے یہ دنیا اور دنیا پرست ترقی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ جہاں کے صرف لوگ خوشحال اور انہیں ہر طرح کی دنیاوی اور مادّی سہولیات میسر ہوں۔
اسلام کے مطابق ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہے جہاں انسانی اقدار بلند ترین اور اپنی معراج پہ ہوں۔
الّلہ نے اپنی مخلوقات میں جانوروں کو صرف خواہش (کھانا, پینا, سونا, جاگنا, sex ) عطا فرمائی ہے اور ملائکہ فرشتوں کو صرف عقل عطا فرمائی ہے، اور اشرف المخلوقات انسان وہ ہے جسے خواہش اور عقل دونوں عطا فرمائی ہیں، اور اسی لئے ذاتِ کبریاء نے ملائکہ سے فرمایا, "جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے” اور ملائکہ سے آدم کو سجدہ کروایا ہے۔ بس جو انسان خواہشات کو اللّہ کی مقرر کردہ حدود کے مطابق قابو کر کے عقل کو غالب کر لے وہ ملائکہ سے افضل ہو جاتا ہے اور اسی آدم کو ملائکہ کا سجدہ ہے، اور جو انسان عقل کو ہاتھ سے جانے دے اور صرف خواہشِ نفس کا غلام بن جائے وہ جانوروں سے بھی بد تر ہوجاتا ہے.
دینِ خدا کے مطابق ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہے جہاں کے لوگ خواہش نفس پہ قابو رکھ کے عقل کو غالب کرنے والے اور کردار میں فرشتوں اور ملائکہ سے بلند تر ہوں۔
ایسے معاشروں میں ملکی اور ٹریفک قوانین کا احترام، راستوں میں کچرا نہ پھینکنا اور پھیلانا صفائی کا خیال، اپنے سے کمزوروں پہ رحمت و درگزر نہ کہ ظلم و جور، اپنی ہاتھ اور زبان سے دوسروں کی حفاظت، کام میں ایمانداری و سچائی وغیرہ سب اس لئے نہیں کیا جاتا کہ آپ کو پولیس ، عدالتوں اور حکومت کا خوف اور ڈنڈا ہو بلکہ اس سوچ اور احساس کے ساتھ سب کیا جاتا ہو کہ اگر یہ سب نہ کیا تو خدا کی زمین میں ہماری وجہ سے خرابی پیدا ہوگی جسے فسادفی الارض کہا جاتا ہے اور جو سخت گناہ اور حرام ہے، اس سے بچا جائے۔
اللّہ نے ہر انسان میں اس کی آزمائش کے لئیے "چار” بنیادی "بھوک” Program کی ہیں. یہ چار بھوکیں ہر انسان میں موجود ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک ہر انسان میں باقی تین سے زیادہ ہوتی ہے.
/ انسانی بھوک کی چار اقسام /
* کسی میں دولت کی ہوس و بھوک غالب ہے.
* کسی میں کھانے کی ہوس و بھوک غالب ہے.
* کسی میں نامحرم یا سیکس کی ہوس و بھوک غالب ہے . * کسی میں نمودونمائش اور شہرت کی ہوس و بھوک غالب ہے. (Fame)
اسلام انسان کی وہ تربیت کرتا ہے اور اسے کردار کی ان بلندیوں اور معراج پہ لے جاتا ہے کہ,
* دولت کی ہوس رکھنے والے کے سامنے اگر سونے چاندی کے ڈھیر پڑے کھلے چھوڑ دیئے جائیں اور کوئی منع کرنے ٹوکنے روکنے والا بھی موجود نہ ہو تب بھی ان دولت کے انباروں میں سے ایک ڈھیلا بھی کم نہ ہو.
* جسے زیادہ کھانے کی ہوس و بھوک ہو وہ روزے زیادہ رکھے اور جب کھائے آدھا پیٹ جگہ رکھ کے کھائے.
* جسے سیکس کی بھوک و ہوس ہو اسے نامحرموں کے درمیان آزاد چھوڑ دیا جائے اور ہر طرح کی آزادی اسے دے دی جائے لیکن وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کے نظر بھر نہ دیکھے.
* جو شہرت نمودونمائش / Fame کے رسیا ہوں وہ راہِ خدا میں اس طرح عمل صدقات و خیرات انجام دینے لگیں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔
شریعتِ الہیٰ کی تربیت کے مطابق جن معاشروں میں انسانوں کے کردار اس درجے تک اعلیٰ, پاکیزہ اور بلند ہوجائیں جہاں خود غرضی حرص دکھاوا اور لالچ نہ ہو، جہاں اپنے سے پہلے دوسرے کی بھلائی اور اسے نقصان سے بچانے کا سوچا جائے، جہاں اپنی بھوک کو بُھلا کر دوسرے کی بھوک کا احساس کیا جائے، جہاں کسی طرح کے ظلم و ناانصافی کا تصّور نہ ہو اور جہاں کے انسان ہر لمحے اپنا احتساب و محاسبہ کرنے والے اور جہادِ بالنفس پہ قائم رہنے والے ہوں وہ ہے معاشروں کی ترقی اور وہ ہیں اصل Developed ترقی یافتہ معاشرے. باقی تمام انتظامی و مادی ترقی کے مراحل بہت بعد میں اور فلاحی شعبوں میں شامل ہیں۔
مغربی معاشرے اور جنہیں دنیا ترقی یافتہ کہتی اور سمجھتی ہے ان سب کا ظاہر نہایت عمدہ اور خوشنماء لیکن باطن اتنا ہی گندہ ہے اور ہمارا معاشرہ وہ ہے جس کا ظاہر بھی گندہ اور باطن بھی گندہ ہے۔ اسلام اس ترقی یافتہ معاشرے کا قیام چاہتا ہے جس کے ظاہر اور باطن دونوں نہایت خوشنماء اعلٰی اور پاکیزہ ہوں۔ ۔ اور معاشرہ ہم جیسے فردِ واحد سے وجود میں آتا ہے، اسلئیے ہمیں زمانے اور معاشرے کو الزام دینے کے بجائے جہادِ بالنفس، اپنی ذات میں حقیقی عمل اور ہر لمحہ اپنے احتساب و محاسبے اور اپنی اور اپنی اولادوں کی کڑی تربیت پہ زور دینا چاہئے۔
تحریر: سید حسن علی