ریاست کا چوتھا ستون
صحافت کو ملک پاکستان کے چوتھے ستون کا لقب تو دے دیا گیا لیکن صحافیوں کے حقوق کے لیے پاکستان میں کوئی اقدامات نا اُٹھائے جا سکے سرکاری محکموں میں چھپی کئی کالی بھیڑوں کی کرپشن بے نکاب کرتے کرتے کئی صحافی جام شہادت نوش کر گئے لیکن صحافیوں کے حوصلوں کو پست نا کیا جا سکا
ایسا ہی آج ایک واقعہ سیالکوٹ علامہ اقبال ٹیچنگ ہسپتال میں پیش آیا جہاں انسولین کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں لگی سینکڑوں بزورگ خواتین گتھم گتھا ہو رہی تھی وہی پر ڈاکٹر شکیل کی سربراہی میں سرکاری عملہ سرکاری انسولین فروخت کر کے دیہاڑیاں لگانے میں مگن تھا جب خواتین کی جانب سے احتجاج کیا جانےلگا تو کئی خواتین سراپا احتجاج کے لیے تیار تھی جنکی کوریج کے لیے ہمارے صحافی بھائیوں کا سہارا لیا گیا
لیکن یہ بات سیالکوٹ علامہ اقبال ٹیچنگ ہسپتال میں تعینات ڈی ایم ایل او ڈاکٹر شکیل اور سیکیورٹی انچارج وسیم کو ہضم نا ہوئی کوریج سے پہلے ہی ہمارے صحافی بھائیوں کو DMLO ڈاکٹر شکیل کی جانب سے حراساں کر لیا گیا مائک لوگو چھین لیے گئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی زدوکوب کیا گیا یرغمال بنا کر رکھا گیا تو پھر صحافت آزاد کہاں سے ہے چوتھا ستون کیسے ہو گیا سوچیں تھوڑا نہیں زیادہ سوچیں کیونکہ کالی بھیڑیں ہر محکمہ میں موجود ہیں انکو بے نکاب کرنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش عمل میں لاتے رہیں گے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے گھبرانا ہمارا پیشہ نہیں اور یہ عمل آخری سانس تک جاری و ساری رہے گا۔