اسلام میں بظاہر ظالمانہ اور استحصالی نظر آنے والے نظامِ غلامی/کنیزی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا گیا
موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے قارئین سے درخواست کروں گا کہ ذیل میں Brackets میں موجود میری ایک پرانی تحریر بھی دوبارہ مطالعہ کر لیجیے "شریعتِ الہیٰ کے چار بنیادی مقاصد”
[[[ "شریعت” The Devine laws اصل میں ہوتی کیا ہے اور کسی معاشرے پہ جب بھی بھیجی گئی اس سے Implement کرنا کیا مقصود رہا ہے.
شریعت جس بھی زمانے میں یا جس بھی معاشرے میں موجود رسول پہ بھیجی گئی اس نے بنیادی ترین "چار” کام کیے..
١- جو امور اس معاشرے کے پہلے سے سہی تھے انہیں حلال کہ کے یا آج کی ہماری زبان میں Ok کر کے Continue کر دیا. جیسے ہمارے اسلامی مہینوں کے نام محرم تا ذی الحج اور ان میں محترم مہینوں کا Concept یہ سب اسلام نے Continue کروا دیا جو قبل اسلام سے معاشرے میں رائج تھا اور بہت سے دوسرے امور ان میں شامل ہیں.
(خاص طور پہ ملحدین حضرات جن کو دوسرے مذاہب یا تہذیبوں سے چرایا ہوا سمجھتے یہ اس بات کی واضح دلیل اور ثبوت ہے کہ دنیا میں ہر مقام پہ ایک ہی خدائے واحد کی جانب سے رسول اور انبیاء ؑ ایک جیسے پیغام کے ساتھ بھیجے گئے ہیں اسی لیے دنیا میں میں سزا اور جزا , غلط اور سہی کے ایک جیسے Concepts موجود ہیں! ہندومت یا سناتن دھرم میں بھی نرکھ اور سورگ اور ملک الموت کی طرح یمراج کا Concept موجود ہے.
حالانکہ یہ انتہائی معمولی Common sense کی بات ہے کہ تمام پیغامات شریعتوں اور نظاموں کا خالق اور بھیجنے والی یکتا وواحد ذات ہی ہے ورنہ دنیا کے دور دراز مقامات میں جب کہ سفر بھی انتہائی محدود تھا یہ مماثلت ہرگز نہ ہوتی )
٢- جو چیزیں معاشرے کے لیے کم نقصان دہ تھیں انہیں یا تو صرف منع فرمایا یا عوامی جمہوری رائے کے اوپر معاملہ موقوف کر دیا. آج جیسے بہت سے امور پہ اجتہاد یا اجماع کیا جاتا ہے.
۳- ان فائیدے مند امور کو دوبارہ حلال کیا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر یا مختلف ادوار کے مذہبی پیشواوں کی کارستانیوں کی وجہ سے حرام کر لیے گئے تھے یا جنہیں معاشرے انجانے میں حرام سمجھ بیٹھے تھے.
۴- جو اطوار و امور معاشرے کی ظاہری یا باطنی کسی بھی طرح کی صحت کے حوالے سے سخت مضر یا نقصان کا باعث تھے جنہیں انسان سمجھتا تھا یا وقت کے ساتھ بعد میں سمجھا انہیں مکمل حرام کر کے ان کا دروازہ بند کر دیا.
شریعتِ الہیٰ جو رسل پہ بھیجی گئیں کبھی ان کا مقصد ظالم بادشاہوں , جابر Dictators کی طرح انسانوں پہ دھونس زور زبردستی سے اپنا نظام نافذ کرنا نہیں رہا. ہر دور میں آنے والی شریعت ایسے جابر نظاموں کے خلاف معاشروں کی نجات دہندہ بن کے آئی ہے جو اشرافیہ , ڈکٹیٹرز یا ظالم بادشاہ اپنے ذاتی مقصد اور فائیدوں کے لیے طویل عرصوں میں Design کیا کرتے تھے.
مزید یہاں چھوٹا سا اضافہ اور کر دوں کہ شریعت کسی بھی معاشرے کو انفرادی یا اجتماعی مکمل بھرپور فائیدہ تب دیتی ہے جب اسے مکمل Follow کیا جائے , آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ اس میں نہیں چلتا! یہ تسبیح کے دانوں یا موتیوں کے حار کی طرح نظام ہے جسے اگر توڑ ڈالا تو سب بکھر کے بے فائیدہ ہو جاتا ہے!]]]
غلامی/کنیزی کا یہ نظام اس دنیا میں اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد صدیوں تک جاری رہا. اس نظام کے تحت ان غلاموں اور لونڈیوں پہ ستم اور ظلم کی ہولناک داستانیں عمومً ان اپنے اپنے وقت کے مہذب معاشروں میں رقم ہوئیں جو اپنے اوپر نازل ہوچکی شریعت الہیٰ سے کافر , ملحد ہو چکے تھے اور سفید چمڑی والے یورپی باشندوں نے جو جو ستم اور ظلم کے پہاڑ افریقی سیاہ فام باشندوں پہ توڑے وہ مستند تاریخ کا ایک حصہ ہیں, جن پہ پوری پوری کتابیں , Articles اور Documentaries موجود ہیں.
لیکن یہاں ہمارا موضوع شریعت محمد ﷺ سے متعلق ہے کہ آخر کیوں جب بہت سے امور اس نظامِ شریعت میں حلال اور حرام کیے گئے تو بظاہر استحصالی اور ظالمانہ نظر آنے والا یہ رسم و نظام اسلام میں جاری رکھا گیا..??
اس امر کی وضاحت کے لیے میں دوبارہ آپ کو اپنی پرانی تحریر کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ شریعتِ الہیٰ نے ان امور کو جاری رکھا جو سہی تھے یا جن میں انسانی معاشروں کے لیے ظاہر یا باطن میں فوائید پوشیدہ تھے اور چار میں سے ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ جو کم نقصان کا باعث اعمال و رواج معاشرے میں رائج تھے انہیں صرف منع فرمایا یا دوسرے الفاظ میں ان کی کمزوریاں اور غلطیاں دور کر کے انہیں درست فرما دیا.
خدائے بزرگ و دانیٰ کا کلامِ معجز قران میں ارشاد ہے کہ ,
"ممکن ہے کچھ چیزیں تمہیں ناگوار ہوں لیکن وہ تمہارے حق میں بھلی ہوں” (القران)
شریعتِ الہیٰ کبھی صرف ظاہر پہ بات نہیں کرتی نہ عوام اور انسانوں کی جماعت جن کے لیے بھیجی جا رہی ہے ان کی رضا اور خوشنودی کے احکامات کا اجراء اور پرواہ کرتی ہے بلکہ ہر حکمِ شرعی میں ہمیشہ ایک باطنی پہلو شاملِ حال ہوتا ہے جسے اہلِ نظر اور اہلِ فکر خدا کے بندے غور و فکر سے سمجھ لیا کرتے ہیں اور جن میں ان معاشروں اور انسانیت کی فلاح شامل ہوتی ہے بیشک ظاہر میں وہ ناپسندیدہ ہی کیوں نہ نظر آرہے ہوں!
اسلام نے اس نظامِ غلامی کا خاتمہ یا اسے حرام اس لیے نہیں فرمایا کیونکہ بالکل مثالِ حرمتِ شراب کی طرح جیسے اس کے فائیدے بہت تھوڑے لیکن نقصانات بہت زیادہ تھے بالکل اسی طرح نظامِ غلامی/کنیزی کے فوائید زیادہ اور نقصانات بہت تھوڑے تھے.
اس مثال میں بھی آپ کو ہمارے شریعت کے چار Objectives کے نقاط شامل نظر آجائینگے.
اسلام نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں بلکہ بارہا ارشادِ الہیٰ ہے کہ انفرادی بھی اور اجتماعی اقوامِ عالمین میں بھی بعض کو بعض پہ فضیلت عطا فرمائی گئی ہے اور ہر عروج کو زوال اور زوال کو عروج ہے, یہ نظامِ حیاتِ مادی کی بقا کے لیے ضروری امر بھی تھا. اگر دنیا کا ہر فرد دولتمند اور Companies کا مالک بن جائے تو کمپنی میں کام کرنے والے Employee/ملازمین کہاں سے آئینگے اور نظام رک جائے گا!
بس ہر انسان کو اپنی Jurisdiction میں رہتے ہوئے ہمیشہ اپنی الہیٰ اور شرعی ذمیداریاں پوری کرنی ہیں. یہی اس سے مطلوب ہے.
غلامی/کنیزی کے اس نظام میں "نقصان” ان غلاموں اور لونڈیوں پہ کافر و ملحد معاشروں میں ہونے والا ان پہ ناحق ناجائز ظلم اور ان کا بدترین استحصال تھا!
یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ایک جانب پیغمبر ختمی المرتبت محمد ﷺ اور آپ کے محترم صحابہ اکرام (ر) اپنے ذاتی مال اور اسباب سے ظالم مشرکینِ قریش اور دوسرے افراد سے غلاموں / لونڈیوں کو خرید خرید کر آزاد فرماتے رہے, لیکن دوسری جانب بظاہر اس نظام سے اہلِ اسلام مستفید بھی ہوتے رہے.
شریعتِ الہیٰ نے اس کے خاتمے اور درستگی کے لیے بحیثیت انسان غلاموں/لونڈیوں کے حقوق مقرر فرمائے اور ان کے حقوق کو حقوق العباد کے کڑے قوانین میں شامل فرمایا گیا!
یاد رکھیے…!
حقوق العباد وہ قوانین ہیں جنہیں خدا ہرگز معاف نہیں فرمائے گا جب تک وہ انسان جس کے ساتھ ظلم ہوا وہ خود معاف نہ کردے جبکہ اپنے حقوق جو حقوق اللہ کہلاتے ہیں انہیں اپنی عظیم رحمت سے خدا معاف فرما سکتا ہے. حقوق العباد ہی پہ یومِ آخرت میں اصل سزائیں مقرر ہیں!
اب اس نظامِ غلامی/کنیزی کے ان فوائید کی جانب آتے ہیں جنہیں حضرت انسان نے اپنے تمام تر عقل و شعور یا کہ دیا جائے کہ خود کوعقلِ کل سمجھنے کے باوجود کبھی سمجھا ہی نہیں.
میری ناقص ترین سوچ کے مطابق جن وجوہات کی وجہ سے اسلام میں اس نظام کو جاری رکھا گیا, یہ وہ انسانی انفرادی و اجتماعی اس نظام کے فوائید ہیں کہ اگر یہ نظام شرعی الہیٰ حدود و قوانین کے دئرے میں اس دنیا میں آج بھی نافظ ہو جائے تو اس سے معاشروں کو Social/ Economical/ Educational فوائید حاصل ہو سکتے ہیں.
اسلام نے اس نظام سے دو بنیادی ترین انسانی فلاحی مقاصد حاصل کیے
/ پہلا مقصد…/
جب یہ نظام صحیح شرعی قوانین کے تحت نافظ تھا تب,
* نہ لوگ فٹ پاتھوں / راستوں میں سویا کرتے تھے انہیں ایک گھر چھت اور ٹھکانا میسر ہوتا تھا اور یہ وہ تکلیف دہ ترین مسئلہ ہے کہ جو اس کا شکار ہو وہی محسوس کر سکتا ہے کہ لیا جائے کہ جس پہ گزرتی ہے اور آج کے جدید ترین معاشروں میں بھی لوگ فٹ پاتھوں یا سخت سردیوں میں بھی پارکس میں سونے پہ مجبور ہوتے ہیں.
* محدود اہلیت, قابلیت اور صلاحیت کے حامل افراد بے روزگاری , افلاس , بھوک و فاقوں اور بے کاری سے بچ جایا کرتے تھے وہ جس کی غلامی یا کفالت میں ہوا کرتے اس کے لیے امورِ خانہ اور دوسری خدمات انجام دیا کرتے تھے. اس سب کے بدلے ان کا کفیل یا مالک ان کی مناسب رہائیش, جو خود کھائے انہیں بھی کھلانے کا, ان کے کپڑے لباس اور دوسری انسانی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ذمیدار اور پابند ہوتا تھا.
* شریف النفس غریب خواتین محض غربت, بھوک یا اولاد کے لیے انتہائی مجبور ہو کے غلط راستوں کا انتخاب کرنے سے بچ جایا کرتی تھیں. انہیں کنیزی کی صورت میں عزت, تحفظ اور حقوق میسر آتے تھے! یہی وجہ ہے کہ بہت سے بادشاہانِ وقت , اسلامی سپہ سالار اور فاتح جرنیل مختلف کنیزوں کی اولاد تاریخ میں گزرے ہیں.(آج یورپی ممالک میں بھی خواتین کی بڑی تعداد غلط پیشے محض بیوگی, عدم تحفظ اور معاشی مجبوریوں کی وجوہات سے منتخب کرنے پہ مجبور ہوتی ہیں, باقائیدہ ان سے ان کی کمائی پہ Tax بھی وصول کیے جاتے ہیں جن سے جیلوں میں قید غیر قانونی تارکینِ وطن کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں)
ایسے ہی بہت سے انفرادی و اجتماعی معاشرتی/ Social فائیدے تھے جن میں ان غلاموں اور کنیزوں کا خریدار یا کفیل امورِ خانہ اور دوسری خدمات کے بدلے ان کے تمام معاشی, رہائیشی , کفالتی, حفاظتی امور کا مکمل زمیدار اور ان کے حقوق کا نظامِ اسلامی میں پابند تھا. غلام اور کنیز عام معاشرے کا حصہ سمجھے جاتے تھے.
/ دوسرا مقصد../
دوسرا مقصد دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت تھا. ان غلاموں اور کنیزوں کی ذہنی قابلیت ,عقل, فہم و فراست کے حساب سے تعلیم و تربیت کی جاتی/ دور کے حساب سے انہیں Educate کیا جاتا اور وقت آنے پہ انہیں آزاد کر دیا جاتا کہ جاو اور دنیا کے دور دراز مقامات میں اسلام کا حقیقی روشن پیغام پہنچاو اور انسان کو خدائے واحد کی جانب سے اس کا مقصدِ حیات سمجھا سکو. یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمیں دنیا کے دور دراز گوشوں میں بھی مذاہبِ عالم میں مماثلت نظر آتی ہے.
بلخصوص بعد از رسول ﷺ اور خلافتِ راشدہ, اموی بادشاہت کے دور میں جب کربلا کا ظلم برپا کیا گیا, واقعہ حرہ پیش آچکا ,دین اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنے کی کوششیں کی گئیں, چند صحابہ(ر) و تابعین جو حیات اور زندہ باقی تھے ان پہ پابندیاں عائید کر دی گئیں تو آئیمہ اہلیبیت ؑ نے دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے اس طریقے کا استعمال فرمایا!
امام زین العبدین ؑ کے پاس سینکڑوں غلام اور کنزیں موجود ہوا کرتیں جن کی آپ کفالت فرمایا کرتے اور ان کی انفرادی اہلیت و قابلیت دیکھ کر ان کی تعلیم و تربیت فرماتے اور مخصوص مدت بعد انہیں آزاد کر دیا جاتا اور دنیا کے مختلف علاقوں کی جانب تبلیغ و اشاعتِ دین کے لیے روانہ کر دیا کرتے.
مستند تاریخی اوراق شاہد ہیں کہ اہلیبیتؑ کے عمل ,خلوص, محبت, اخلاق, کردار اور علوم کے گرویدہ یہ غلام اور کنیزیں روتے تڑپتے نا چاہتے ہوئے درِ اہلیبیت ؑ سے جدا ہوا کرتے.
سوچنے کی بات ہے کہ اگر شریعتِ الہیٰ غلامی/ کنیزی کے اس نظام کو قوانین اور حقوق کا تابع کرنے کے بجائے "حرام” مقرر کر دیتی تو معاشرے کے لیے مفید ترین یہ افعال و امور کیسے انجام دیے جا سکتے تھے???
/چند تاریخی مثالیں/
آئیے تاریخ کے ان کچھ کنیزوں اور غلاموں کا مختصر احوال جانتے ہیں جن کے علم , وفاداری, جاننثاری, اخلاق , عمل و کردار مستند تاریخ کا حصہ ہیں. جن کی تربیت دینِ خدا کے اصول و ضوابط کے مطابق کی گئی اور جنہیں اسلام نے وہ عزت و مرتبے عطا فرمائے کہ رہتی دنیا تک انہیں سلام ان سے عقیدت اور ان کااحترام کیا جاتا رہے گا.
ایسے ہزاروں غلام اور کنیزیں اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں جن کی شخصیات پہ الگ کتابیں اور Internet پہ Data موجود ہے, کوئی بھی سنجیدگی سے چاہے تو انتہائی آسانی سے ان کا مطالعہ فرما سکتا ہے یا Videos بھی یوٹیوب پہ دیکھی جا سکتی ہیں.
جنابِ فضہ (س)
یہ سیاہ فام کنیز خود جناب رسول خدا محمد مصطفیٰ ﷺ نے بی بی سیدہ فاطمہ زاہرا (س) اور شیر خدا مولیٰ علی ؑ کو عطا فرمائی تھیں. امورِ خانہ داری میں بی بی سیدہ (س) نے جناب فضہ (س) سے یہ معاملہ فرمایا تھا کہ ایک دن آپ خود انجام دیں گی اور ایک دن جنابِ فضہ.
حضرت فضہ (س) نے طویل عمر پائی , آپ نے رسول اللہ ﷺ کے دور سے امام زین العابدین ؑ تک چار سے پانچ نسلوں کا دور دیکھا. آپ کربلا کے واقعے کی چشم دید گواہ ہیں اور ہر لمحہ قافلہ حسینی کے ہمراہ موجود رہیں.
ان بی بی کا علمی مقام ومرتبہ یہ تھا کہ آپ گفتگو ہی صرف قران میں فرمایا کرتی تھیں مطلب کہ اگر کوئی آپ سے بات کرتا تو آپ اس بات کی مناسبت سے جواب میں قران کی آیت تلاوت فرما دیا کرتی تھیں.
یاد رکھیے ایک تحریر میں بیان کر چکا ہوں کہ قران Mind sciences کا ایک شاہکار و کرشمہ ہے!
جنابِ قنبر (ر)
مولیٰ علی ؑ کے غلام تھے. آپ حضرت علی ؑ سے شدید محبت رکھتے اور حضرت علی ؑ کو بھی ان سے محبت تھی. حضرت علی ؑ جب رات کے وقت کسی کام سے باہر تشریف لے جاتے تو آپ اپنی معصومانہ دانست میں دشمنوں سے ان کی حفاظت کی غرض سے خاموشی سے ان کا پیچھا کیا کرتے. حضرت علی ؑ کے پاس دو لباس پیش کیے گئے جن میں ایک سادہ اور ایک قیمتی تھا تو آپ ؑ نے اپنے لیے سادہ لباس منتخب فرمایا اور قیمتی لباس جناب قنبر (ر) کو دے دیا کہ فنبر تم جوان ہو اور اچھا لباس جوان کو ذیب دیتا ہے.
حضرتِ قنبر (ر) کو حجاج ابن یوسف نے شہید کیا.
حضرت جون (ر)
یہ سیاہ فام وفادار و جاننثار وہ عظیم کردار ہیں جنہیں تحریکِ کربلا کے دوران امام حسین ؑ نے آزاد فرما دیا کہ دشمن میرے خون کا پیاسا ہے , تم ان کی نظر میں بے قصور ہو تمہیں آزاد کرتا ہوں بخیریت رخصت ہو جاو. تب اس غلام نے نواسہ رسول ﷺ سے جدا ہونے سے انکار کر دیا اور روتے ہوئے کہا کہ اے میرے آقا سید و سردار امامؑ کیا آپ مجھے اس لیے اس مبارک و عظیم شہادت سے دور رکھنا چاہتے ہیں کہ میں دوسری قوم سے تعلق رکھتا ہوں اور رنگ میں کالا ہوں. سید الشہداء امام حسین ؑ نے انہیں محبت سے گلے لگا لیا اور آنسووں بھری آنکھوں سے دعا دی.
جنابِ حضرت جون (ر) نے یومِ عاشور دس محرم ٦١ ہجری کربلا میں جامِ شہادت نوش فرمایا.
جنابِ شیریں (س)
یہ بھی خانوادہ رسالت ماب ﷺ کی آزاد کردہ کنیز تھیں اور ان سے منسوب ایک مقام "قلعہ شیریں” کے نام سے عراق میں کوفہ شہر کے نزدیک موجود ہے.
انہیں بھی نہ چاہتے ہوئے شہرِ مدینہ میں درِ اہل بیت ؑ سے بہت سا مال انعام و اسباب دے کر آزاد فرمایا گیا. ہدایت کے مطابق یہ وہاں سے نزدِ کوفہ تشریف لے آئیں اور ایک قلعہ نما رہائیش گاہ تعمیر فرما کے اس میں سکونت اختیار کر لی اور خواتین میں دین کی اشاعت و تبلیغ کی ذمیداری انجام دینے لگیں. واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین ؑ کے ہمراہ خانوادہ رسالت ماب ﷺ کی اسیر و گرفتار بیٹیوں کا قافلہ جنابِ شیریں کے قلعہ میں ٹھیرایا گیا اور انہیں سر ڈھانپنے کے لیے چادریں مہیا کی گئیں جو فوجِ یزید نے ذلالت کی حدیں پار کرتے ہوئے چھین لی تھیں. جب اس کنیز نے ان ہستیوں کو پہچانا تو نہایت غمگین ہوئیں اور ہمیشہ ہزن و ملال کا شکار رہیں.
غلامِ حضرت حبیب ابنِ مظاہر(ر)..
جنابِ حبیب ابن مظاہر (ر) کربلا کے سب سے بزرگ شہید ہیں. لیکن یہ اہلِ بیت ؑ میں شامل نہیں. امام حسین ؑ کے طلب کرنے پہ یہ اپنے شہر کوفہ سے کربلا کے لیے روانہ ہوئے لیکن تمام شہر کے راستے اس مقصد سے بند کر دیے گئے تھے کہ لوگ حسین ؑ ابن علیؑ کی نصرت کے لیے کربلا نہ پہنچ سکیں.
حبیب ابن مظاہر (ر) نے اپنے غلام کو گھوڑا دے کر روانہ کیا کہ ایک خاص مقام پہ میرے پہنچنے کا انتظار کرو.
حضرتِ حبیب (ر) کو اس مقام تک پہنچنے میں کچھ تاخیر ہو گئی تو دیکھا ان کا غلام گھوڑے پہ سوار کہ رہا تھا کہ, "اے گھوڑے اگر میرا مالک آج نہ پہنچا تو میں تیرے اوپر سوار ہو کے نواسہ رسول ﷺ کی نصرت کے لیے ضرور پہنچوں گا "
یہ غلام بھی جنابِ حبیب (ر) کے آزاد کرنے پہ جدا نہ ہوا اور آپ کے ساتھ واردِ کربلا ہوا اور جامِ شہادت نوش فرمایا.
حضرت حر ابن یزید ریاحی کا غلام…
حر ابن یزید فوجِ یزید کا ایک افسر جو نواسہ رسول امام حسین ؑ کے قافلے کا راستہ روک کر انہیں کوفہ کے بجائے کربلا لے آیا لیکن آخر دن تک وہ اس خام خیالی اور خوش فہمی کا شکار رہا کہ حاکمِ وقت کیسا ہی جابر ہو وہ کم ازکم خانوادہ رسول ﷺ سے جنگ کی ہمت نہیں کرے گا اور آخر میں مذاکرات یا معاملات طے پا جائیں گے. لیکن آخر دن جب جنگ کے طبل بجا دیے گئے تو اس نے خود کو جنت اور جہنم کے درمیان گھرا پایا. اسی تمام تر کشمکش میں اس نے موت کا فیصلہ کیا اور اپنے بیٹے اور غلام کے ہمراہ مختصر سے قافلہ حسینی میں شامل ہو گیا. ان کے غلام نے بھی آزادی قبول نہ کی اور اپنے مالک ہمراہ موت اور شہادت کے حیاتِ ابدی راستے کا انتخاب فرمایا. یہ حضرات صبحِ عاشور دس محرم کربلا کے شروعاتی اول شہداء میں شامل ہیں.
تاریخ اسلام میں ہزاروں ایسے تربیت یافتہ پاکباز غلاموں اور کنیزوں کا ذکر موجود ہے جن کے متعلق کتابوں سے پڑہا جا سکتا ہے اور Online search بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں ہم نے بالخصوص رسول ﷺ اور اہل بیت رسول ﷺ سے متعلق غلاموں اور کنیزوں کا ذکر کیا کیونکہ ہر دین میں صاحبِ شریعت ہستیاں ہی اس کا حقیقی دستور , منشور اس کی اصل روح اور اس کی ترجمان ہوا کرتی ہیں اور قوم ان کی پیروی کیا کرتی ہے. مزید یہ کہ بعد از رسول ﷺ کربلا ہی وہ تحریک تھی جس میں خالص ترین خدا کے بندوں کی آزمائیش کی گئی اور بمطابقِ قران مومنین آزمائیشوں اور صعوبتوں میں ہلا ہلا دیے گیے.
ایسے کڑے موقع پہ بہت سے غلام اور کنیزیں تھیں جنہوں نے آزاد ہو جانا قبول نہ کیا اور اپنے لیے شہادت اور حیاتِ ابدی کا راستہ منتخب فرما لیا.
یہ بات ہم نے نہایت آسانی سے بیان کر دی لیکن ایک غلام اور کنیز کی Human psychology کو مدِ نظر رکھ کے اس بات کو ذرا سمجھیے.
ایک غلام ہو یا لونڈی اس کے لیے اس کی "آزادی” زندگی کی سب سے بڑی راحت اور خوشی ہے. جیسا کہ آپ اپنے لیے تصور کیجیے کہ فلاں بات ہو جائے تو مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی نعمت یا خوشی مل جائے!
ایسے میں راہِ خدا میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی جو ملنے جا رہی ہے اس کو قربان کر دینا کیا معمولی بات ہے???
یا…
دین خدا کی تربیت اور اللہ کے حقیقی سچے پاک بندوں کی قربت و صحبت ہی ایسا امر تھا جو غلام اور کنیز کے لیے ان کی ظاہری آزادیوں سے بھی کہیں بڑہ کے تھا!
یہ ہے دینِ خدا کا اصل روشن اور باطنی چہرہ جس میں ظاہر سے کہیں بڑہ کے اصل انسانی آزادی , فلاح , خوشی اور خیر پوشیدہ ہے!
تحریر: سید حسن علی