این ایف سی ایوارڈ IMF کیوں رو رہا ہے ؟
این ایف سی ایوارڈ IMF کیوں رو رہا ہے ؟
پنجاب اور سندھ کی بلیک میلنگ .. ریاست کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو رہی ہے !!
ابو حیان سعید
پاکستان کے معاشی سسٹم کے نئے نویلے دولہا ، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی قیادت میں پاکستانی ٹیم کی IMF سے بات چیت، وزارت خزانہ کے کیو بلاک میں کی گئی۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور چیئرمین ایف بی آرامجد زبیر ٹوانہ بھی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے۔پہلے دن کے مذاکرات میں وزارت خزانہ میں آئی ایم ایف وفد اور معاشی ٹیم کے درمیان تعارفی سیشن ہوا۔ آئی ایم ایف وفد کی قیادت نیتھن پورٹر جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے معاشی ٹیم کی قیادت کی۔ تعارفی سیشن کے دوران وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آرنے وفد کو بریفینگ دی۔
آئی ایم ایف وفد نے معاشی استحکام کیلئے حکومتی وفد سے کہا کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے سخت معاشی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی۔ وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کرمعاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں تفاوت کا حوالہ دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
آئی ایم ایف نے وارننگ دیتے ہوئے صوبائی حکومتوں کی جانب سے ضرورت سے زیادہ فضول اخراجات کا معاملہ بھی اٹھایا.
آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر، مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز پر ٹیکس اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اب IMF کو کیا پتا کہ پاکستان میں ” رئیل اسٹیٹ سیکٹر ” پر ٹیکس IMF تو کیا ، آسمان سے فرشتہ بھی آ کے نہی لگوا سکتا کیونکہ ” رئیل اسٹیٹ سیکٹر ” تو اسٹیبلشمنٹ کی لائف لائن ہے .
اسی طرح مینوفیکچررز میں ” فوجی ” یا ” عسکری ” مارکہ پر سارے ٹیکسز لاگو کرنا تو گناہ کبیرہ سے بھی بڑا گناہ ہو جاتے گا . باقی IMF جو چاھے ناچتا رہے ..
صوبائی حکومتیں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاقی حکومت سے مالیاتی رقوم حاصل کرتی ہیں۔ پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبرپختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد حصہ ملتا ہے۔
لیکن پنجاب اور سندھ میں کھربوں روپے کی یہ رقوم زیادہ تر کاغذی منصوبوں اور پراجیکٹس کے علاوہ کمیشن ،کک بیکس کی نظر ہو جاتی ہیں ، پنجاب میں شھباز سپیڈ کے پہلے دور سے یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ کسی اسکول میں دو کلاس رومز بنانے کا پروجیکٹ دو کروڑ روپے ، ایک باتھ روم کا پروجیکٹ اسی لاکھ روپے ، کھیل کے میدان کی رینووشن چالیس کروڑ ، ایک کلومیٹر کی روڈ کا خرچہ پچاسی کروڑ ( روڈ کیا خاک بنی صرف روڑی اور مٹی ڈالی گئی ) اسی قسم کے ہزاروں پروجیکٹس تھے جن کا کوئی وجود ہی نہی تھا .
مزے کی بات یہ ہے کے پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت NFC ایوارڈ کی کھربوں کی رقم سر پلس میں چھوڑ گئی تھی کیونکہ عثمان بزدار حکومت ٹرانسفرز ، پوسٹنگز سے اربوں روپے کما رہی تھی اور وہ کمیشن کک بیکس کے دو تین کھرب کو ” چندی چوروں ” کے کام سمجھتی تھی اور یہ کمیشن کک بیکس کی کہانیاں بہت جلد زبان زد عام بهی ہو جاتی ہیں ،اس لئے عثمان بزدار دور میں کاغذی پروجیکٹس بھی نہی بن سکے کہ روزانہ درجنوں ٹرانسفرز، پوسٹنگز کی فائلز CM کی ٹیبل پرہوتی تھیں اور ان فائلز کو روزانہ نمٹانا ہی CM کی اصل ڈیوٹی تھی .
سندھ سائیں لوگوں کا صوبہ ہے ، جہاں صرف لاڑکانہ میں ہر سال اسی نوے ارب خرچہ کیا جاتا ہے لیکن لاڑکانہ میں روڈ ز ٹوٹی ہوئی ہیں ،سارا شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے ، جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ بنے ہوے ہیں ، آخر ہر سال یہ اربوں روپے کہاں چلے جاتے ہیں ؟ یہ صرف ایک مثال ہے .. ورنہ پورا سندھ تباہ ہو چکا ہے ..
اسی پر تو IMF رو رہا ہے ..
پنجاب اور سندھ NFC ایوارڈ کی رقوم میں کٹوتی کے IMF کے پہلے مطالبے پر وفاق کو دھمکیاں دینے پر اتر آے ہیں .سندھ کے CM مراد علی شاہ نے تو یہ در فنطنی بھی چھوڑی ہے کہ NFC ایوارڈ کی رقوم میں کمی نہی کی جا سکتی بلکہ اضافہ ہو نا چاهیے !
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ پنجاب اور سندھ کو NFC ایوارڈ کی مد میں دی جانے والی رقوم میں 50 فیصد کٹوتی کی جانی چاہیے ، تا کہ وفاق یا اسٹیبلشمنٹ کو IMF ، سعودی یا قطریوں سے ڈالرز کی بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے .