سبق زندگی
پاکستانی ججوں، جرنیلوں، سیاستدانوں، دانشوروں، کاروباری افراد اور بیوروکریٹس سے درخواست ہے کہ سبق زندگی زندگی کی شمع سے حاصل کریں۔ بڑے بڑے عہدے، عہدوں کی اکڑ، سارا رعب دبدبہ، دولت، شہرت اور عہدوں کا نشہ ایک دن سب خاک ہو جائیگا، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائیگا۔ زندگی سے اس وقت سبق حاصل کریں جب آپ کے پاس طاقتور عہدے ہوں، دولت کی ریل پیل ہو اور دبدبے کی ساری ہوائیں آپ کیساتھ چلتی ہوں۔
کچھ بھی یادگار نہیں رہتا، راہ راست پر بیتے لمحے سفر کو یادگار بنا دیتے ہیں، یہی راہ نجات ہے، ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں محفل سماع تھی، کچھ نوجوانوں کی احساسات کو چھو لینے والی گفتگو اور اسکے بعد زمرد خان کی وہ باتیں جو دلوں کی دھرتیوں کو آباد کرتی ہیں،
سیراب کرتی ہیں اور شاداب بنا دیتی ہیں۔ محفل سماع میں معروف قوال عزیز میاں مرحوم کے فرزند عمران عزیز اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے، انہوں نے اپنے والد کی ایک قوالی ’’یا نبی یا نبی‘‘ پیش کی، عمران عزیز نے حاضرین محفل کو بتایا کہ یہ 28اپریل 1983ء جمعرات کے دن کا واقعہ ہے جب مکہ شہر میں عزیز میاں نے یہ قوالی پیش کی، یہیں سے یہ قوالی امر ہو گئی۔
عمران عزیز نے پہلے حمدیہ کلام پھر ’’یا نبی یا نبی‘‘ اور اس کے بعد کئی زبانوں میں شان علی ؓبیان کی، آخر میں قلندر کا دھمال پیش کیا گیا۔ یہ تقریب سویٹ ہوم کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے منعقد کی گئی تھی، تقریب میں تلاوت کرنیوالا اور نعت رسول مقبول پڑھنے والا بچہ سویٹ ہوم کا تھا، اسکے بعد کئی نوجوانوں نے اپنا تعارف مستقبل کی پیش بندیوں کیساتھ بیان کیا۔ آپ سوچ رہے ہونگے یہ سویٹ ہوم ہے کیا؟
یہ مئی 2009ء کا قصہ ہے جب دہشتگردوں نے پر پھیلائے اور انہوں نے ہمارے کئی علاقوں کو اپنا مسکن بنا لیا تھا پھر ان علاقوں میں پاک فوج نے بھر پور آپریشن کیا، اس دوران ہماری بہت سی آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں وقت گزارنا پڑا، زمرد خان ان دنوں بیت المال کے ایم ڈی تھے، انہوں نے ان کیمپوں میں ڈیرہ لگایا اور خدمت میں دن رات ایک کر دیا،
یہیں انہیں ایک یتیم بچہ ملا، انہوں نے اس بچے کو اپنا لیا اور پھر وہ یتیم بچوں کو اپناتے رہے، انہی بچوں کے لئے زمرد خان نے اسلام آباد میں سویٹ ہوم بنایا جہاں ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی رہی، انہیں احساس یتیمی سے نکال کر سایۂ شفقت میں لایا گیا، زمرد خان ان بچوں کے پاپا جانی بن گئے، ان بچوں کیلئے عالمی معیار کی سہولتوں کیساتھ تعلیمی اداروں کے دروازے کھول دیئے گئے،
کھیل کے میدان، بہترین خوراک اور شاندار ملبوسات مہیا کر دیئے گئے پھر یونیفارم آ گیا۔ زمرد خان بچوں کو ننھے فرشتے اور بچیوں کو ننھی پریاں کہہ کر پکارتے تھے، یوں انہوں نے اسلام آباد میں فرشتوں اور پریوں کا بہشتی مسکن بنایا۔ ابھی کل کی بات ہے چند برس پہلے میں اور زمرد خان اسی سویٹ ہوم میں بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ چھوٹے چھوٹے بچے ننھی کونپلوں کی طرح تھے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آج وہی ننھی کونپلیں جوانی کا روپ دھارے اشجار بن چکے ہیں۔
آج کوئی بچہ ڈاکٹر بن رہا ہے، کوئی انجینئر، کوئی سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہے، کوئی قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن رہا ہے، یہ بچے آج بھی زمرد خان کو پاپا جانی کہتے ہیں۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے، آج بھی وہاں ننھی کونپلیں آتی ہیں، نشوونما کے بعد پودوں اور اشجار کا روپ دھارتی ہیں مگر کل اور آج میں بڑا فرق ہے۔ کل زمرد خان کے پاس صرف ایک سویٹ ہوم تھا،
آج اس کا دائرہ پھیل چکا ہے، سوہاوہ میں سویٹ ہوم کیڈٹ کالج کام کر رہا ہے، میر علی وزیرستان اور سکھر میں بھی سویٹ ہوم ہے، ایک سویٹ ہوم بھلوال سرگودھا میں ہے، سویٹ ہوم میں جن بچوں کا مستقبل سنوارا جا رہا ہے ان میں سے کوئی بلوچستان کا باسی ہے تو کوئی دریائے سندھ پر آباد کسی بستی کا رہنے والا، کسی کا مسکن وزیرستان تو کوئی مظفرگڑھ اور سیالکوٹ کا رہائشی، کچھ ستارے کشمیر سے، کوئی گلگت کا پھول ہے تو کوئی اسکردو کا چاند، سویٹ ہوم میں پورا ملک نظر آتا ہے ۔
زمرد خان کا بھی سن لیجئے! زمرد خان نے پنڈی سے وکالت کی پھر پیپلز پارٹی کے ایم این اے بنے، بیت المال انہیں سویٹ ہوم لے آیا پھر وہ سویٹ ہوم کے ہو کر رہ گئے۔ زمرد خان کو وکالت کیا، سیاست بھی بھول گئی کیونکہ ان کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہو چکا تھا۔
زمرد خان نے چار مرتبہ موت کو قریب سے دیکھا مگر زندگی انہیں راہ نجات پر لے آئی، یہ راستہ جنت کی راہوں میں سے ایک ہے، رسول کریم ﷺکا فرمان ہے ’’یتیم کی کفالت کرنیوالا روز حشر میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے دوسری انگلی‘‘۔ اسی لئے میں کہتا ہوں لوگو! زندگی زمرد سے سیکھو۔ اپنے ملک کے یتیم اور نادار بچوں کی کفالت کرو، انہیں ذمہ دار شہری بناؤ، سویٹ ہوم کا اس بار سلوگن ہے ’’اس رمضان کی زکوٰۃ، سویٹ ہوم کے نام‘‘۔ زمرد خان کو دیکھ کر اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت