اکراہ کی بحث اور چند گذارشات
عبداللہ عمر
محترم زاہد مغل صاحب نے”لا اکراہ فی الدین” میں ذکر کردہ "اکراہ ” کے متعلق یہ لکھا ہے کہ کسی کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے زبردستی روکنا اکراہ میں داخل نہیں ۔ نظیر کے طور پر انہوں نے بیت اللہ سے بتوں کے توڑنے کی مثال دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو انکے مذہبی رسوم یا عبادات پر عمل کرنے سے روکا تھا ۔ ہماری نظر میں یہ بات درست ہے کہ مطلقا اکراہ میں اس معنی کو شامل کرنا ٹھیک نہیں ، لیکن مدعی میں پیش کردہ نظیر درست معلوم نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہی تھی کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں(اس حوالہ سے ہم سورۃ برآت کی کچھ آیات کی تفصیلات اور بخاری شریف کی ایک حدیث کا جائزہ لیں گے )
بایں وجہ سے جزیرہ عرب میں مشرکین ویہود سے متعلق خاص احکامات نازل ہوئے تھے من جملہ اس میں انکی مذہبی آزادی ، مذہبی رسوم کے اداء کرنے پر پابندیاں بھی شامل تھیں۔ اس حکم اطلاق دیگر بلاد اسلامیہ پر نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ دیگر بلاد اسلامیہ میں مشرکین /یہود ونصاری بطور ذمی بن کر رہ سکتے ہیں _
(ہماری نظر میں قادیانیت کی فقہی اور شرعی تکییف "زندیقیت” ہے جن کا حکم ذمی والا ہزگز نہیں ہے ۔
لیکن چونکہ مغل صاحب کی نظیر میں ذمیوں کا تذکرہ آگیا تھا اس لیے ہم ذمیوں کے متعلق چند متعلقہ احکامات ذکر کریں گے جس سے واضح ہوجائیگا کہ شرعی اعتبار سے جو ذمی ہیں انکو بھی ہر طرح کی مطلقا”مذہبی آزادی” حاصل نہیں ہے ۔
(نیز مکرر عرض ہے کہ ذمیوں کو جو چار دیواری میں سہولت دی گئی ہے اسکا اطلاق قادیانیوں پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دونوں کی شرعی تکییف میں فرق ہے )
کیا ذمیوں کو اپنی مذہبی رسوم /عبادات /معبد کی تعمیر میں مطلق آزادی ہوگی ؟؟؟یا اسلامی ریاست انکو اس حوالہ سے مختلف امور پر پابندی لگا سکتی ہے یا الفاظ دیگر ان پر (اکراہ ) کرسکتی ہے؟ تو اسکی تفصیلات ہیں :
(1) مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمّہ خود اپنی بستیوں میں تو ان کو پوری آزادی کے ساتھ کر سکیں گے البتہ خالص اسلامی آبادیوں میں حکومتِ اسلامی کو اختیار ہو گا کہ ان میں آزادی دے یا ان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کر دے ۱؎ ۔ بدائع میں ہے:۔
لا یمنعون من اظہار شییٔ مما ذکرنا من بیع الخمر والخنزیر والصلیب وضرب الناقوس فی قریۃ او موضع لیس من امصار المسلمین ولو کان فیہ عدد کثیر من اھل الاسلام وانما یکرہ ذالک فی امصار المسلمین وھی الّتی یقام فیھا الجمع والا عیاد والحدود۔
واما اظھار فسق یعتقدون حرمتہ کالزناوسائر الفواحش اللّٰتی حرام فی دینھم فانھم یمنعون من ذالک سواء کانوا فی امصار المسلمین او فی امصارھم۔ (بدائع ج ۷ ص۱۱۳)
(2) اسی طرح ذمیوں کو نئے معابد بنانے کا حق نہیں ہے۔
(بدائع جلد۷ ص ۱۱۴۔ شرح ایسرالکبیر ج۳ ص۲۵۱)
(3) باقی جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمّیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئے معاہد اور کنائس تعمیر کریں یا ناقوس بجائیں یا علانیہ شراب اور سُور کا گوشت بیچیں۔
(کتاب الخراج ص۸۸)
جزیرہ عرب میں مشرکین ویہود ونصاری سے متعلق مخصوص احکامات کی تفصیلات
(1) سورۃ برآت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی جس دوران لوگ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہی تھی کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : 6 ص : 572 مزید تفصیلی حوالہ آگے آرہا ہے ) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دئیے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر 29 کے تحت تفاسیر میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرہ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرہ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرہ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے،
ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں :
(الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرہ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں تو ان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
(ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : 871)۔
(ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔
(ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : 5 میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرہ عرب سے باہر جائیں تو ان کو قتل کردیا جائے گا۔
(د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی ایسے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : 4 میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔
ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔
(2) حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وصال سے پانچ دن قبل یعنی جمعرات کے دن حاضرین (جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے) کو تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی:
من جملہ ان ارشادات میں سے یہ بھی ارشاد تھا کہ :
مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے۔ (واضح رہے کہ یہاں مشرکین سے مراد عام کفار ہیں خواہ مشرکین ہوں یا اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) ، دوسری روایات میں "اخرجوا اليهود والنصارى” بھی ہے، مطلب یہ ہے کہ “جزیرہ عرب” اسلام کا مرکز اور خاص قلعہ ہے، اس میں صرف اہل اسلام کی آبادی ہونی چاہیے، اہل کفر کو آبادی کی اجازت نہ دی جائے اور جو ابھی تک آباد ہیں ان کو اس علاقہ سے باہر بسا دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم اور وصیت کی تعمیل کی سعادت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی ، انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کی تکمیل فرما دی۔
حوالہ :
صحیح بخاری میں ہے :
"حدثنا ابن عيينة، عن سليمان الأحول، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما: أنه قال: يوم الخميس وما يوم الخميس؟ ثم بكى حتى خضب دمعه الحصباء، فقال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه يوم الخميس، فقال: «ائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا» ، فتنازعوا، ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا: هجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «دعوني، فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه» ، وأوصى عند موته بثلاث: «أخرجوا المشركين من جزيرة العرب، وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم»، ونسيت الثالثة، وقال يعقوب بن محمد، سألت المغيرة بن عبد الرحمن، عن جزيرة العرب: فقال مكة، والمدينة، واليمامة، واليمن، وقال يعقوب والعرج أول تهامة.”
(باب: هل يستشفع إلى أهل الذمة ومعاملتهم؟4 / 69، ط: دار طوق النجاۃ)