صحافت اصل میں ہےجہاد فی سبیل اللہ

صحافت اصل میں ہےجہاد فی سبیل اللہ

صحافت اصل میں ہےجہاد فی سبیل اللہ

صحافت ایک انتہائی اہم منصب اور مقدس پیشہ ہے۔ جس میں چھوٹے اضلاع کی حد تک تنخواہ صفر اور کام 24 گھنٹے کا ہے ۔ ہر خبر پر نظر رکھنے کے لیے ، جب تک صحافی 24 گھنٹے ایکٹو نہیں رہے گا رزلٹ ناممکن ہے۔ صحافیوں کو گھر چلانے کے لیے الگ اپنا کوئی کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ صحافت میں آپ نے یا تو سب درستگی کی رپورٹ لکھنی ہے ۔ اگر آپ افسران اور سیاستدانوں سے ملاقات اور ان کے اچھے اچھے بیان لکھتے ہیں اور عوام اور ان کے مسائل پر آنکھیں بند کر کے سوئے رہتے ہیں ، تو آپ کسی مسائل کا شکار نہیں ہوں گے ۔ بلکہ آپ اپنے ہی نہیں ، اپنے تعلقات والوں کے کام بھی لے سکتے ہیں ۔ انتظامیہ ، سیاستدانوں سے بھی تعلق اور معاشرہ بھی راضی ہو گا۔

لیکن آپ اس کے بر عکس اگر عوام کے مسائل لکھیں گے، ظلم و زیادتی کی خبریں نشر کریں گے ، انتظامیہ اور سیاستدانوں سے ملاقاتیں نہیں کریں گے ، یہ سوچ کر کہ اگر ان سے تعلقات بنا لیے ، تو ان کے خلاف آئی حق سچ کی خبروں کو کیسے لکھ سکیں گے ۔ تو آپ سے خالق خدا کی آواز بلند کرنے پر ، اور حق سچ لکھنے پر اللہ راضی ہو گا ، آپ کا ضمیر بھی مطمعن ہو گا یا جس کا مسئلہ اجاگر ہوا ، وہ راضی ہو گا۔صرف دعائیں ملیں گی ۔ لیکن وہ خبریں آپ کے بچوں کا پیٹ نہیں بھریں گی۔

کیونکہ حق سچ لکھنے کی پاداش میں آپ کے مخالفین بڑھیں گے ، جن کے خلاف لکھیں گے ، ظاہری بات ہے وہ طاقت ور طبقہ ہو گا ، ان کی طرف سے کردار کشی ، گالیاں ، ناجائز جھوٹے کیس کے علاوہ جان سے ہاتھ گنوا بیٹھو گے کیونکہ۔

حق کے لیے جاں دینے کی جو رسم چلی ہے
اس رسم کا بانی ہی امام حسینؑ ابنِ علیؑ ہے

صحافی معاشرے کی آنکھ ،کان اور ناک بن کر معاشرے کی رہنمائی کرتے ہوئے مثبت اور منفی پہلو بتاتا ہے، اپنے مستقبل کی فکر کی بجائے معاشرے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے ، جبکہ اس مہنگائی کے دور میں ہر شہری اپنے گھر کی فکر میں ہے۔ لیکن صحافی وہ مجاہد وطن ہے جو ان تمام مسائل کا جرت مندی سے سامنا کرتے ہوئے ، معاشرے میں سر پر کفن باندھ کر شہادت کے لیے تیار ، کلمہ حق بلند کرتے ہوئے باطل کے سامنے سینہ تانے رکھتا ہے۔ ان تمام مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود معاشرہ صحافی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے ۔ افسوس صد افسوس۔

صحافت کربلا کا میدان ہے ، اس کربلا کے میدان میں وقت کے یزیدوں کے سامنے حضرت امام حسین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے باطل کے سامنے سینہ تان کر ، حق سچ کا عام بلند کرتے ہوئے ،یزیدوں کی طرف سے تمام تنگی و تکلیف کو سہتے ہوئے ، جام شہادت نوش کرنے کا نام صحافت ہے۔

میں سمجھتا ہوں، یہ ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہے ، عمل اور قول میں بہت فرق ہوتا ہے۔ تنقید کے نشر چلانے والوں کو میں دعوت صحافت دیتا ہوں۔ حقائق پر مبنی خبریں ، حقائق و ثبوت سمیت منظر عام پر لا کر دیکھائیں۔ اپنے نام سے ایک بار لگا کر چیک تو کریں کہ یہ پھولوں کی سیج ہے کہ کانٹوں سے بھرا کٹھن سفر۔

صحافی کو غیر جانبدار رہتے ہوئے کسی بھی انجام کی پرواہ کے بنا لوگوں کو اصل حقائق دیکھانا ہوتے ہیں۔جبکہ میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اپنوں کی طرف سے داد کم اور تنقید کا سامنا زیادہ رہتا ہے۔

صحافی بننے والا ہر فرد اپنے انجام کی فکر کے بنا مسائل کی نشاندھی کرتا آ رہا ہے اور کرتے رہیں گے۔کسی بھی مسائل پر ایکشن لینا یا نہ لینا انتظامیہ کا کام ہے۔ موجودہ کرپٹ نظام میں صحافیوں کی کوششیں چڑیا کی چونچ میں پانی کے قطرہ سے آگ بجھانے کی کوشش کے مترادف ہیں لیکن تمام تر پابندیوں اور مسائل کے باوجود ہم بھی چڑیا کی کوشش کی طرح اللہ کی بارگاہ میں ظلم کے خلاف کام کرنے والوں میں سے گنے جائیں گے نہ کہ ظالموں میں سے۔

باقی لوگوں کو تو خالق کی جانب سے بھیجے ہوئے پاک اور نیک بندوں پر بھی اعتراض رہے ہیں۔ میں تو ان کے پاوں کی خاک بھی نہیں ہوں۔ میرا سلام ہے ان صحافیوں کو ، جو بنا کسی لالچ کے ، اللہ پاک کی مخلوق کی مشکلات کی نشاندھی کرتے ہوئے ، جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔

جرائم پیشہ عناصروں کا صحافت کی آڑ لینا

ہمارے معاشرے میں زیادہ تر جرائم پیشہ عناصروں نے صحافت کی آڑ لے رکھی ہے جنکا صحافت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہے جو صرف اور صرف آپنے ذاتی کام لینے کے لئے ہر غیرقانونی دھندے کو سرانجام دے رہے ہیں جیسا کہ قحبہ خانوں کا دھندہ کروانا منشیات فروخت کروانا پاؤڈر فروخت کروانا شراب فروخت کروانا بلیک ملینگ کرنا غیرقانونی منی پٹرول پمپ نسب کروانا عطائی ڈاکٹر بن جانا افسران کو لڑکیاں پیش کرنا جھوٹے مکار ، شراب نوش پاؤڈر نوش ، شراب نوش ، ڈکیت ، چور ، زنا کار بدکار ، بدنام زمانہ ، ریکارڈ یافتہ ملزم ، ناجائز قبضہ مافیا ، سود خور ، سود کا کاروبار کرنے والے سب کے سب بڑے بڑے اداروں سے چینلز کا لوگو خرید کر اور اخبارات خرید کر صحافت کا لباس آپنے بدن پر اُورے محکموں اور اداروں افسران اور ملازموں کو بلیک میل کر کے اور جھوٹی من گھڑت خبریں نشر کر کے آپنے آپنے مقاصد پورے کر لینا انکا فطیرہ ہے جو کے کئیں ایسے بڑے بڑے چینلز والوں اور اخبارات والوں کو لکھنا تک نہیں آتا اور خود کو اداروں اور محکموں کے افسران کے سامنے سینئر صحافی اور بیوروچیف تک بن کر پیش ہو جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں اصل صحافیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ آپناۓ رکھتے ہیں تاکہ ہماری مدد کو تیار رہے اور ہر غیرقانونی کام میں ہمارا ساتھ دیں اور جب میرے جیسا بندہ ایسے نوسرباز بدنام زمانہ یا صحافت کی آڑ میں چھپے کالی بھیڑیوں کو سامنے لاتا ہے تو اسکے خلاف من گھڑت نوسربازیاں من گھڑت درخواستیں دینا شروع ہوجاتے ہیں اور میں حیران ہوں ایسے محکموں کے افسران اور اداروں کے افسران پر جو ایسے جرائم پیشہ عناصروں کو آپنے دفتروں میں پناہ دیتے ہیں اور انکے ساتھ تصویریں بنا لیتے ہیں میری ڈی پی او سیالکوٹ سے اور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سے بالخصوص التجاء ہیکہ تمام پولیس افسران اور تمام سرکاری دفتروں کو احکامات جاری کیے جائیں کے اج سے کوئی صحافی کسی کے سرکاری دفتر میں بغیر کسی کام کے فضول نہ بٹھایا جاۓ اور نہ ہی انکے ساتھ تصویر بنوائی جاۓ کیونکہ کسی صحافی کے ماتھے پر یہ نہیں لکھا کے وہ جرائم پیشہ صحافی ہے یا ایماندار بےپاک صحافی ہے اور تمام نوسرباز بدنام زمانہ صحافیوں سے دور رہیں۔ شکریہ*

ابوولید خاں نائب صدر ضلع سیالکوٹ پاکستان انٹرنیشنل میڈیا کونسل آفیشل گروپ

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles