قاری حنیف ڈار اور امام زہری رح پر اعتراضات

قاری حنیف ڈار اور امام زہری رح پر اعتراضات

قاری حنیف ڈار اور امام زہری رح پر اعتراضات

(مستشرقین سے کاپی پیسٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ )

یہ بات تقریباً تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ کتابت حدیث اور حفظ حدیث دونوں زمانہ نبوت سے شروع ہوچکے تھے، بعض صحابہ کے صحیفے اس کے لیے پیش کئے جاسکتے ہیں، مگر”تدوین رسمی” حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں ہوئی اس کا سہرا کسی ایک شخص پر نہیں،بلکہ مختلف علاقوں کے مختلف ذی استعداد قابل اعتماد حضرات کے ہاتھوں یہ کام ہوا؛ البتہ امام زہریؒ کا کارنامہ عظیم تھا ۔
اس لیےمستشرقین(اور انکے تلامذہ ، جدت پسند و منکرین حدیث ) نے کوشش یہ کی کہ پہلی ہی بنیاد کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تاکہ ساری عمارت خود بخود ڈھ جائے؛
چنانچہ سب سے پہلا تیر "گولڈزیہر "نے یہ چلایا کہ حدیث بنی امیہ کے دور کی پیداوار ہے؛ یہی اسلام کا مکمل اور پختہ بلکہ دورِ عروج ہےپھراس الہام کی تشریح اس طرح کی کہ پہلی صدی ہجری میں امویین وعلویین کے دوگروہ آپس میں نبردآزما ہوئے، کسی کے پاس قرآن وحدیث سے ٹھوس دلائل نہیں تھے اس لیے کچھ حدیثیں گھڑ کر چلتا کیا گیا، ہرگروہ نے اپنے زعم کے مطابق حدیثیں گھڑیں، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کی سرپرستی بھی حاصل رہی؛ بلکہ شاباشی دی گئی، حضرت امیرمعاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے یوں کہا تھا:کہ حضرت علی پر سب وشتم کرنا، حضرت عثمان کے حق میں رحمت کی دعا کرنا؛ نیزاصحاب علی کو گالی گلوج کرنا ان کی حدیثوں کے خلاف حدیثیں گڑھنا مت چھوڑو۔
اعتراضات :
(1)بنوامیہ نے زہری کو خریدا:
اپنی جھوٹی عمارت کی تعمیر کے لیے بنوامیہ کا ایک بادشاہ عبدالملک بن مروان نے چال چلی کہ جب فتنہ عبداللہ بن زبیر کے موقع پر حج سے ممانعت کردی گئی تو عبدالملک نے بیت المقدس میں “قبۃ الصخرہ” کی تعمیر کرکے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس وقت کے نامور محدث، جن کا دور دور تک شہرہ تھا، یعنی امام زہری کو اس کام کے لیے راضی کیا کہ بیت المقدس کی فضیلت کے باب میں کوئی حدیث گڑھیں؛ چنانچہ زہری نے ایک مشہور حدیث گھڑی جس کو امام مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے:
“لَاتَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّاإِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِي هَذَاوَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى”۔ (مسلم، باب سفرالمرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، حدیث نمبر:۲۳۸۳)
یہ زہری کے موضوعات میں سے ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جتنی سندیں بھی منقول ہیں سب جاکر زہری پر منتہی ہوتی ہیں۔
(2) مستشرقین نے زہری کی بابت ایک عجیب قصہ نقل کیا ہے جو مختلف سندوں سے کتابوں میں محفوظ ہے کہ ابراہیم بن الولید اموی زہری کے پاس ایک صحیفہ لایا، جس میں اپنی من پسندروایتیں لکھ لی تھیں اور زہری سے اس کی اجازت طلب کی، زہری نے بھی بلاکسی تردید کے اس کی اجازت دے دی،اور یہ فرمایا:
“مَنْ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُخْبِرَکَ بِھَا غَیْرِی؟”۔کہ میرے علاوہ اس کی خبر تم کو اور کون دے سکتا ہے۔اس طرح اس صحیفہ کی روایتیں زہری کے حوالے سے بیان کی جانے لگی۔
(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۱۹۲)
(3) زہری کی مجبوری:
مستشرقین لکھتے ہیں خود امام زہری کے ذاتی احوال میں اس طرح کی باتیں ہیں کہ بادشاہوں کی ہاں میں ہاں ملانا باعثِ فخر تصور کرتے ہیں؛ خواہ اس کے وجوہات کچھ بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ ہشام نے اپنے ولی عہد کے اتالیقی کی پیش کش کی، یزید ثانی نے منصبِ قضا کا عہدہ دیا، سب کوبخوشی قبول کیا، جب کہ علماء کے نزدیک یہ ایک محقق مسئلہ ہے :
“مَنْ تَوَلّیٰ الْقَضَاءَ فَقَدْ ذَبَحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ”۔جس نے عہدۂ قضاء قبول کیا اسے اُلٹی چھری سے ذبح کردیا گیا۔
البتہ ہوسکتا ہے کہ اس تقرب کی وجہ امام زہری کوحدیثوں کے گڑھنے کی مجبوری ہو؛ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر آپ نے کھل کر اعتراف کیا:
“أَكْرَهْنَا هَؤَلَاءِ الْأُمَرَاءَ عَلَى أَنْ نَكْتُبَ أَحَادِيْثَ”۔کہ ان امراء نے ہمیں حدیثوں کے گڑھنے پر مجبور کیا۔

یہ وہ زہرافشانی ہے جو مستشرقین کی طرف سے کی گئی، اب مندرجہ ذیل سطور میں ان سب کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

اعتراضات کا تحقیقی جائزہ:
حدیث پاک امویوں کی پیداوار نہیں:
حدیثِ پاک دین کا ایک بنیادی حصہ ہے، اس کے بغیر صحیح اسلام کا تصور محال ہے؛ پھریہ کہنا کہ اس کا بڑا حصہ امویوں کی کوششوں سے وجود میں آیا، سراسر دین وشریعت کے ساتھ ناانصافی ہے؛ کیونکہ رسول اللہﷺ پرجو آخری آیت اتری ہے وہ ہے “الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا” (المائدہ:۳) اس میں کھلے لفظوں میں اکمال دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کردیا گیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:”۔ کہ دوچیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر ان دونوں کو مضبوط پکڑے رہوگے تو پھر گمراہ نہیں ہوسکتے،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنے نبی کی سنت۔(موطأ مالک، باب النھی عن القول بالقدر، حدیث نمبر:۱۳۹۵)
خلفاء بنی امیہ کو دینی امور سے دل چسپی:
تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلفاء بنی امیہ میں ایک دو کو چھوڑ کر سب دین دارنظر آتے ہیں، ذاتی خامی کس شخص میں نہیں ہوتی ہے کہ ان کو لے کر ان کے سارے کارناموں کو ملیامیٹ کردیا جائے، جس عظیم بادشاہ عبدالملک پر گولڈزیہر، امام زہری سے سازباز کرنے کا الزام لگاتا ہے، اسی کے متعلق طبقات ابن سعد میں حضرت ابن عمرؓ کا قول منقول ہے کہ لوگوں نے ان سے پوچھا :”أرایت اذانفانی أصحاب رسول اللہ من نسال؟” کہ اصحابِ رسول کے ختم ہوجانے کے بعد ہم لوگ کس سے سوال کریں گے؟، تو حضرت ابنِ عمرؓ نے عبدالملک کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرمایا: “سلوا ہذا الفتی” کہ ان نوجوان سے پوچھو۔(المفصل في الرد على شبهات أعداء الإسلام:۹/۲۹۷،شاملہ، جمع وإعداد الباحث في القرآن والسنة،علي بن نايف الشحود)
اسی طرح جب لوگ آپ کے پاس خلافت وبیعت کے لیے آئے تو دیکھا کہ پورے عالم اسلام کا ہونے والا شاہ، ایک دھیمی روشنی میں قرآن کی تلاوت کررہا ہے؛ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ علماء کو انہو ں نے وضع حدیث کے لیے استعمال کیا ہو، ان کا جو کچھ بھی اختلاف تھا دینی پیشواؤں سے نہیں؛ بلکہ سیاسی قائدین اور خوارج سے تھا، جوہرملک اور حکمراں کے لیے ناگزیر ہے اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

امام زہری اصل نشانہ:
چونکہ امام زہریؒ کی طرف منسوب حدیث کی عظیم خدمت، خدمتِ تدوین ہے اس لیے مستشرقین کا اصل زور اسی پر صرف ہوا کہ امام زہری کی شخصیت کو بگاڑ دیا جائے اور ان کو ایک دنیادار، حریص، بادشاہوں کا وفادار اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ثابت کیا جائے؛ تاکہ حدیث نبوی کا پورا ڈھانچہ ہی کچھ کا کچھ ہوجائے اس لیے مختصر طور پر ہم امام زہری کے حالات درج کرتے ہیں۔
ابتدائی حالات:
امام زہریؒ ابوبکر محمد بن مسلم بن عبیداللہ، قرشی زہری ہیں، ابن شہاب سے بھی مشہور ہیں، راجح قول کے مطابق سنہ۵۱ھ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد حضرت عبداللہ بن زبیر کے فوجی تھے، امویوں کے خلاف لڑتے رہے، باپ کا جب انتقال ہوا تو آپ یتیم ہی نہیں، تربیت کرنے والوں کی تربیت سے بھی محروم ہوگئے؛ لیکن آپ کے اندر کا جوہر، علم کی طرف راغب کررہا تھا؛ چنانچہ صرف ۸۰/یوم میں حفظ مکمل کیا، عبداللہ بن تغلب سے علم الانساب حاصل کیا؛ پھرحلال وحرام اور روایت حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اوراس وقت کے موجود تمام صحابہؓ سے سماع کیا، جن میں دس صحابہ، حضرت انسؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت جابرؓ وغیرہ کے اسماء کی تصریح ملتی ہے؛ پھراجلۂ تابعین سے علم حاصل کیا، جن میں سعید بن المسیب کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جن کی صحبت میں مکمل آٹھ سال رہکر، کندن بن گئے (تہذیب الکمال: ۶/۵۱۱) جب عبداللہ بن زبیر شہید کردئے گئے تو اس کے بعدسے آپ کے تعلقات خلفاء بنوامیہ سے استوار ہوئے؛ چنانچہ مروان، عبدالملک، ولید، سلیمان، عمر بن عبدالعزیز، یزید ثانی اور ہشام تک سے مراسم اچھے رہے،۷۲/بہاریں دیکھنے اور دین کی عظیم ترین خدمت انجام دینے کے بعد ۱۲۴ھ میں انتقال فرماگئے، آپ کی وصیت کے مطابق شاہ راہ عام پر دفن کیا گیا؛ تاکہ ہرجانے آنے والا، دعائے مغفرت کرتا رہے۔
علمی انہماک:
حضرت ابراہیم بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ زہری آپ سبھی پر فائق ہوگئے، کہنے لگے کہ سنو:”وہ علمی مجلسوں میں بالکل سامنے بیٹھتے، مجلس میں ہرجوان اور ادھیڑعمر سے سوالات کرتے؛ پھرانصار کے مجلسوں میں آتے، وہاں بھی جس شخص سے ملاقات ہوتی پوچھ لیا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ خواتین سے بھی پوچھتے تھے”۔ (تہذیب الکمال:۶/۵۱۱)
امام زہری عبیداللہ بن عتبہ بن عبداللہ بن مسعودؓ سے حدیثیں پڑھتے، آپ کے دروازے سے چمٹے رہتے، آپ کے لیے پانی لاتے، باندیاں تو آپ کو عبداللہ کا غلام سمجھتی تھیں اور جوں ہی موقع ملتا کتاب کھول کر بیٹھ جاتے، انہماک کا یہ حال ہوتا کہ عبيداللہ کی بیوی صاحبہ کہتی کہ تین سو کنوں سے زیادہ دشوار یہ کتابیں ہیں؛ پھرگھر لوٹتے تو باندی کو جگاتے اور حدیثوں کو سناتے اور کہتے جاتے کہ مجھے معلوم ہے تمھیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا؛ لیکن چونکہ میں نے ابھی یہ حدیث سنی ہے اس لیے مذاکرہ کے طور پر سنارہا ہوں۔(السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۰۸،۲۰۹)
قوتِ حافظہ:
آپ اپنے دور کے دریتیم اور قوتِ حافظہ کی دولت سے مالامال تھے، ابن عساکر نے ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کیا ہے کہ عبدالملک نے اہل مدینہ کو عتاب والا ایک خط لکھا، جو دوصحیفے کے برابر تھا، وہ خط منبر کے پاس پڑھا گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے توسعید بن المیسب نے اپنے حلقہ درس میں طلبہ سے خواہش کی کہ اس خط میں کیا تھا بتائیں سب نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق کچھ کچھ حصہ سنایا، ابن شہاب زہری نے کہا:”یاابا محمد أتحب أن تسمع کل مافیہ قال: نعم! فقرء حتی جاء علیہ کلہ کأنھا یقرؤہ من کتاب بیدہ”۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۰۹)
کہ اے ابومحمد! کیا آپ اس خط کے پورے اجزاء سننا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! تو ابن شہاب نے پورا خط اس طرح سے ذکر کیا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خط ان کے ہاتھ میں ہے۔
ہشام بن عبدالملک نے ایک موقع پر آپ کے حافظے کا امتحان لینا چاہا؛ چنانچہ آپ سے درخواست کی کہ ان کے بعض صاحبزادے کو حدیثیں املاء کروائیں؛ لہٰذا ابن شہاب نے ایک مجلس میں چار سو حدیثیں املاءکروائیں، ایک ماہ کے بعد ہشام نے کہا کہ وہ صحیفہ ضائع ہوگیا؛ اس لیے دوبارہ حدیثیں لکھوادیں؛ چنانچہ ابن شہاب نے دوبارہ چارسو حدیثیں لکھوائیں، جب مقابلہ کیا گیا توایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔ (تہذیب الکمال:۶/۵۱۲)

آپ کی علمی خصوصیات:
آپ سے متعلق علمی خصوصیات تین بیان کی جاتی ہیں:
(۱) تدوین حدیث: حضرت عمربن عبدالعزیز کے حکم سے اس کارِعظیم کو آپ نے انجام دیا۔
(۲)اسناد: آپ کی شخصیت وہ پہلی کڑی ہے جس نے اسناد کو جاری کیا اور اہتمام سے بیان کیا، امام مالکؒ فرماتے ہیں “اوّل من اسند الحدیث ابن شہاب”
(۳)متن حدیث کا وافر حصہ: ایک اچھا خاصا حصہ ذخیرۂ حدیث کا آپ کے پاس تھا جودوسرں کے یہاں موجود نہیں تھا؛ چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ:
امام زہری نوے حدیث کے قریب روایت کرتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔(مسلم، باب من حلف باللات والعزی فلیقل لاإلہ إلا:۳۱۰۷)

قصرِخلافت میں آمد ورفت:
اگرامام زہری کی زندگی کے اوراق پلٹیں اور قصر خلافت کے حالات کا جائزہ لیں تو ہرمنصف مزاج یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ امام زہری نے قصر خلافت کی آمدورفت سے اپنا مفاد وابستہ نہیں کررکھا تھا؛ بلکہ ان کے بگڑے حالات اور درآنے والی بدگمانیوں کو دور کرنے کی یہ واحد کوشش تھی کہ تعلقات استوار کرکے ان کے ذہن ودماغ کے میل کو صاف کیا جائے “العقد الفرید” میں اسی قسم کا ایک واقعہ یوں درج ہے کہ امام زہری ولید کے پاس تشریف لے گئے ولید نے پوچھا، اہل شام کیا حدیث بیان کرتے ہیں؟ امام زہری نے کہا وہ کیا ہے؟ ولید نے پوری حدیث سنائی کہ اہل شام کہتے ہیں:
“ان اللہ اذااسترعی عبداً رعیتہ کتب لہ الحسنات ولم یکتب لہ السیئات”۔کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو رعایا کے کام کے لیے مسلط کرتے ہیں تو اس کےلیے نیکیاں تو لکھی جاتی ہیں، سیئات نہیں لکھے جاتے۔
امام زہریؒ نے کہا یہ حدیث باطل ہے اور اے امیرالمؤمنین یہ بتائیے کہ کیا بنی خلیفہ افضل ہے یا غیربنی خلیفہ؟ ولید نے کہا بنی خلیفہ امام زہری نے کہا کہ دیکھئے حضرت داؤد کے متعلق قرآن پاک کا کیا ارشاد ہے:
اے داؤد ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا لہٰذا لوگوں کے مابین ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیجئے اورخواہشات کی اتباع نہ کیجئے کہ آپ اللہ کے راستہ سے بھٹک جائیں،یقیناً جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ یوم حساب سے غافل ہوگیا۔ (سورۂ ص:۲۶)
پس اے امیرالمؤمنین! یہ وعید ہے بنی خلیفہ کے لیے تو آپ کا کیا خیال ہے، غیربنی خلیفہ کے حق میں۔(العقد الفرید:۱/۶۰)

ایک دوسرا واقعہ ابن عساکر نقل کرتے ہیں، جس سے ان کی جرأت ایمانی کی خوب سے خوب تصویر کشی ہوتی ہے، ایک موقع پر ہشام بن عبدالملک نے سلیمان بن یسار سے پوچھا کہ “والذی تولی کبر” سے کون مراد ہے، انہوں نے کہا عبداللہ بن أبی، ہشام نے کہا غلط ہے اس سے مراد تو علی بن ابی طالب ہیں، سلیمان نے کہا امیرالمؤمنین کو زیادہ معلوم ہے ،پھر جب امام زہری ان کے پاس گئے تو اس نے امام زہری سے بھی پوچھا: انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہے، ہشام نے کہا کہ غلط ہے، اس سے مراد تو حضرت علی ہیں، امام زہری بالکل آگ بگولا ہوکر بولے:
کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ تیرا ستیاناس ہو! خدا کی قسم اگر مجھ کو آسمان سے پکارنے والا پکار کر کہے کہ اللہ نے جھوٹ کو حلال کردیا ہے تو بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا، مجھ سے فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے بیان کیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہی ہے۔
امام زہری کی دینی حمیت اور ایمانی جرأت کا جب یہ حال ہے تو کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ بقول مستشرقین، چند ٹکوں کی خاطر انہو ں نے وضع حدیث کا ناپاک بیڑا اٹھایا ہو، جب کہ دنیا کا حال ان کی نگاہوں میں یہ تھا کہ عمروبن دینار بیان کرتے ہیں:”مارأیت الدینار والدرھم عن أحد أھون منہ عند الزھری کانہما بمنزلۃ البعر”۔کہ درہم ودینار ان کے نزدیک مینگنی کے برابر تھے۔
اور ناموری وشہرت کا حال یہ ہے کہ بقول گولڈ زیہری: کہ مسلمانوں کے یہاں ایک معروف ومشہور شخصیت تھے۔

قبۂ صخرہ کی حقیقت:
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ گولڈ زیہر نے زہری پر یہ الزام بھی لگایا کہ جب عبدالملک نے عبداللہ بن زبیرکے فتنہ کے زمانے میں چاہا کہ لوگوں کو حج سے روک دیں تو بیت المقدس میں “قبہ صخرہ” کی تعمیر کی اور اس کو دینی رنگ دینے کے لیے زہری سے “لاتشدالرحال الاالی….،الخ” گڑھوا کر چلتا کیا، مؤرخین میں سے ابن عساکر، طبری، ابن اثیر، ابن خلدون اور ابن کثیر کسی نے بھی اس قبہ کی نسبت عبدالملک کی طرف نہیں کی ہے؛ بلکہ ان کے بیٹے ولید کی طرف کی ہے صرف علامہ دمیری ہیں جنہوں نے ابن خلکان سے نقل کیا ہے، جس کے الفاظ ہیں:کہ عبدالملک نے اس کی تعمیر کروائی، لوگ عرفہ کے روز اس کے پاس ٹھہرتے تھے۔
اگریہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ بھی جائے تو اس سے حج کا ثبوت پھربھی فراہم نہیں ہوپاتا ہے؛ کیونکہ عرفہ کے روز اس کے پاس وقوف اور ہے اور حج اور ہے؛ بلکہ اس دور کی ایک عام بدعت تھی جو قبہ صخرہ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ ہرشہر میں لوگ “وقوفِ عرفہ” مناتے تھے جس کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ زہری راجح قول کے مطابق سنہ۵۱ھ اور بعض دیگر اقوال کے مطابق سنہ۵۸ھ میں پیدا ہوئے، حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت سنہ۷۳ھ میں ہوئی ہے تو کیا ۲۲/یا ۱۵/سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ آدمی بلاد اسلامیہ میں شہرت پاکر، عبدالملک کی نظر انتخاب کا شکار ہوجائے، امام ذہبی کے مطابق زہری عبدالملک کے یہاں سنہ۸۰ھ میں، ابن عساکر کے مطابق سنہ ۸۲ھ میں گئے ہیں جو کہ شہادت ابن زبیر سے دس سال بعد کا زمانہ ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہنا کہ “لاتشدواالرحال… الخ” کے راوی تنہا حضرت امام زہری ہیں، روایت حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے، بخاری نے اس روایت کوحضرت ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے، مسلم نے تین طرق سے ذکر کیا ہے اس میں تیسرا طریق ابن وہب عن عبدالحمید بن جعفر عن عمران بن ابی انس عن سلیمان بن الاغر عن ابی ھریرۃ ہے، اس کے علاوہ زہری نے یہ روایت سعید بن المسیب سے لی ہے اور سعید کا حال یہ تھا کہ ہرچیز پر ٹوکا کرتے تھے، حضرت سعید کا انتقال سنہ۹۳ھ میں ہوا ہے تو کیا بیس سال کا زمانہ گزرگیا، حضرت سعید نے ٹوکا تک نہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ زہری نے اس کو وضع کیا ہے تو پوری روایت پڑھ جائیے “قبۃ الصخرۃ” کی کہیں فضیلت تک بیان نہیں کی گئی ہے، جب کہ بقول گولڈزیہر مقصد اس کا یہی تھا۔

کتاب پیش کرنے والی روایت:
ان مستشرقین نے زہری کے وضع حدیث سے متعلق یہ بھی پروپگنڈہ کیا کہ ابراہیم بن الولید اموی نے زہری کے سامنے ایک کتاب پیش کی، زہری نے بلاکسی تردد کے اس کی روایت کی اجازت دی؛ لیکن ان مستشرقین نے تنقید کرتے وقت اصول حدیث کونظرانداز کردیا ابراہیم کا سماع زہری سے ثابت ہے؛ پھروہ کتاب پیش کررہے ہیں جس کو اصولِ حدیث کی روشنی میں مناولہ کہتے ہیں؛ اگرمناولہ کے ساتھ اجازت بھی مل جائے تو اس سے روایت کرنے پر اکثرمحدثین کا اتفاق ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود ذخیرۂ حدیث میں اس صحیفہ سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔

زہری نے جبراً بھی وضع حدیث نہیں کی:
گولڈزیہراور ان کے متبعین نے ابن شہاب کے حالات سے ایک جملہ نکال کر یہ شوشہ چھوڑا کہ خلفائے بنوامیہ نے زبردستی ان سے وضع حدیث کروائی؛ چنانچہ زہری خود کہتے ہیں:”ان ھولاء الامراء اکرھونا علی کتابۃ الحدیث”۔
اگر اس کو تسلیم کرلیا جائے تو پچھلے صفحات میں؛ نیزکتابوں میں زہری کے جوجرأت مندی کے واقعات نقل کئے گئے ہیں سب کے سب افسانہ بن کر رہ جائیں گے، دراصل اس واقعہ میں مستشرقین نے تحریف کیا ہے، ابن سعد اور ابن عساکر نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زہری، روایت حدیث کی بابت پورا زور حافظہ پر دیتے تھے، لکھنے کو مکروہ سمجھتے تھے؛ مگرجب ہشام نے اصرار کی حد تک خواہش کی اور چارسو حدیثیں املاء ان سے کروالی تو زہر ی نے باہر آکر اعلان کیا:
کہ اے لوگو! میں جس چیز سے تم لوگوں کو روکتا تھا، آج میں نے وہی کیا ہے، ان حکام نے مجھے کتابتِ حدیث پر مجبور کیا؛ پس آؤ میں تمھیں وہ بیان کردوں؛ چنانچہ انہوں نے بیان کردیا۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۲۱)
خطیب بغدادی نے تقیید العلم میں اس طرح نقل کیا ہے کہ امام زہری کتابتِ حدیث اور تدوینِ حدیث کو مکروہ سمجھتے تھے؛ لیکن حالات ایسے سامنے آئے کہ پھرکتابتِ حدیث کے قائل ہوئے اور مسلمانوں کو روکنا بند کردیا اسی کو انہوں نے “اکرھونا” کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۲۲۱)

سندکے سلسلے میں زہرافشانی:
سند کا آغاز کس طرح ہوا اس کا پس منظر وپیش منظر کیا تھا، یہ ایک لمبا باب ہے خلاصہ کے طور پر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ چوں کہ جیسے جیسے زمانہ مشکاۃ نبوت سے دور ہوتا گیا اور صحابہ کی مقدس جماعت کم ہوتی گئی ویسے ویسے خیالات بدلتے گئے اور جوں جوں اسلام کا حلقہ وسیع ہوتا گیا مختلف پارٹیاں اسلام کے نام پر متعارض خیالات کی پیدا ہوتی گئیں جس کا آغاز خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی کے آخری دور سے ہی شروع ہوگیا “کوفہ” بصرہ وغیرہ کے بلوائی غلط سلط باتیں عوام میں مشہور کرتے اور حضرت عثمان غنی کے خلاف لوگوں کوبھڑکاتے یہاں تک کہ مدینہ پر چڑھائی کرڈالا اور خلیفہ راشد کے گھر کا محاصرہ کرکے سنہ۲۵ھ میں شہید کرڈالا، اس کے بعد گویا کہ فتنوں کا سیلاب اُمنڈ آیا، جنگ جمل، جنگ صفین کے علاوہ حضرت حسین کی شہادت کا اندوہناک حادثہ رونما ہوا؛ پھرحضرت حسین کے خون کا بدلہ لینے کے نام پر کتنے لوگ اٹھے؛ انہی میں مختار ثقفی بھی تھا، جو لوگوں کو پیسے دے دے کر اپنے موقف کی تائید میں حدیثیں گڑھواتا اور بھی مختلف اسباب پیش آئے اور حدیثیں گڑھی جانے لگیں؛ یہاں تک کہ صغارِتابعین کا دور آیا توحدیث کی سند اور اس کے رجال ورواۃ کی تحقیق وتفتیش کا بہت اہتمام ہونے لگا؛ البتہ اس کے آغاز کا سہرا کس کے سر ہے تو اس سلسلہ میں مختلف حضرات کے نام علماء کے مابین زیربحث رہے ہیں، ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں مختار ثقفی کے دور سے اہتمام ہوا، مختارثقفی سنہ۶۷ھ میں قتل کیا گیا، حضرت یحییٰ القطان کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سند کی تحقیق وتفتیش عامرشعبی نے کی، جن کی وفات ۱۰۰ھ یا ۱۰۱ھ میں ہوئی کوئی اولیت ابن سیرین کو دیتا ہے جن کی وفات ۱۱۰ھ میں ہے، مدینہ میں امام زہری نے کافی زور دیا اس لیے بعض لوگوں نے انہی کواس کا سرخیل مانا ہے؛ بہرحال اتنی بات قدر مشترک ہے کہ سند کا سلسلہ توحضرت عثمان غنی یاکم ازکم حضرت علی وحضرت امیرمعاویہ کے مابین اختلاف کے وقت سے شروع ہوگیا ہے؛ البتہ اس کی تفتیش وتحقیق کا کام ان ادوار میں اہتمام کے ساتھ ہوا، ابن سیرین نے اسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
” کہ لوگ اسناد سے متعلق سوالات نہیں کرتے تھے؛ مگرجب فتنہ رونما ہوا تو کہا کہ اپنے رجال کوبیان کرو؛ پس اگر اہل سنت والجماعۃ سے ہوگا تو ان کی حدیث قبول کی جائے گی اور اگراہل بدعت ہے توقبول نہیں کی جائے گی (مقدمہ مسلم:۱۱)۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے “الاسناد من الدین” تالیف: عبدالفتاح ابوغدہ)
یہاں پر فتنہ سے مراد کم ازکم حضرت علی وحضرت معاویہ کے مابین جو اختلافات بھڑکائے گئے، جن کے نتیجے میں جنگِ صفین کے نام پر مسلمانوں کی تلواریں آپس میں چلیں اور دونوں طرف سے مسلمان شہید ہوئے وہ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دورصحابہ سے ہی سند کا سلسلہ چلاآرہا ہے؛ مگرجوزف شاخت مستشرق یہودی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسناد کا سلسلہ مسلمانوں نے ۱۲۶ھ سے شروع کیا ہے اور ابن سیرین نے “فتنہ” سے مراد ولید بن عبدالملک کا قتل لیا ہے، جو۱۲۶ھ کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ ہے، تاریخ طبری میں ان واقعات کو اضطرابات سے تعبیر کرکے فتنہ کا اطلاق کیا گیا ہے “شاخت” نے اس استدلال کے علاوہ اور کچھ پیش نہیں کیا ہے؛ لیکن یہاں پر غور کرنا چاہیے کہ ابن سیرین کی وفات ۱۱۰ھ میں ہوئی ہے اور یہ واقعات ۱۲۶ھ کے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ابن سیرین نے ۱۶/سال بعد کی بات کہی ہوگی، یہ ایک واضح علامت ہے کہ فتنہ سے مراد وہ نہیں ہے جو “شاخت” لیتا ہے۔

امام زہری ائمۂ جرح و تعدیل، ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی نظر میں :
علماء جرح وتعدیل نے آپ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کیا ہے آپ کی زندگی کا کوئی ایسا باب نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے،
حافظ ابن حجر :’فقیہ اورالحافظ‘ ہیں‘ ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے‘‘۔۔ (تقریب التہذیب:۵۰۶، رقم:۶۲۹۶)
حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے: تم ابن شہاب کو لازمی پکڑو کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے۔‘‘
معروف تابعی قتادہ رحمہ اللہ ( متوفی ۱۰۹ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہاب سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا۔‘
تابعی مکحو ل رحمہ اللہ (متوفی ۱۰۹ھ) فرماتے ہیں: ’’زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابن شہاب باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں۔‘‘
امام لیث بن سعد (متوفی ۱۷۵ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے ابن شہاب زہری سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا ۔‘‘
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سب سے زیادہ ’ثابت‘ امام زہری ہیں ۔‘‘
امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب کے پاس ہے۔ ‘‘
سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ تو علم کا ایک سمندر ہے ‘‘۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام زہری اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں وہ چار ہیں: امام زہری، حضرت علی بن حسین سے، وہ حسین بن علی سے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے اوروہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ اور امام زہری رحمہ اللہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “انھوں نے دس صحابہ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہہ اور فاضل تھے۔ ‘‘ امام احمد العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “تابعی اور ثقہ تھے”۔
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’محمد بن مسلم الزہری ’الحافظ‘ اور ’الحجۃ‘ ہیں۔ ‘‘
ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۱ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
ابو بکر الھذلی رحمہ اللہ (متوفی ۱۶۷ھ) فرماتے ہیں: ’’میں حسن بصری اور ابن سیرین رحمہما اللہ کے ساتھ بیٹھا، لیکن میں نے زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے کہا کہ زہری آپ کو سعید بن مسیب سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہ؟ تو انھوں نے کہا دونوں، تو میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعید؟ تو یحییٰ بن معین نے کہا: یہ سب ثقہ راوی ہیں ۔‘‘
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حدیث کا علم اُمت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا: اہل مکہ میں سے عمرو بن دینار نے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہری نے۔‘‘
(حوالہ فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ازحافظ محمد زبیر)
امر واقعہ یہ ہے کہ امام المحدثین، امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔ اب اس قدر جلیل القدر امام زہری رحمہ اللہ کے معاصر فقہاء، محدثین اور ائمہ کی شہادت امام زہری رحمہ اللہ کے حق میں ہم رد کر دیں اور مستشرقین اور آج کے ان جدید محققین یا متجددین کی قبول کر لیں جو تیرہ صدیوں بعد ان کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟

(بشکریہ الحاد ڈاٹ کام مع اضافہ از عبداللہ عمر)

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles