ایک ہندو کا اعتراض

ایک ہندو کا اعتراض

ایک ہندو کا اعتراض

حضور علیہ السلام گالیاں دیتے تھے معاذاللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو جاہلیت سے منسوب کرے تو پھر اس سے کہو کہ وہ اپنے باپ کے مردانہ عضو کو کاٹ لے اور علامتی بات نہ کرے (یعنی واضح ہو)۔

جواب:

مفتی سید فصیح اللہ شاہ

جواب سے پہلے حدیث کے اصل عربی الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
فقد أخرج الإمام أحمد في مسنده عن عتي، عن أبي بن كعب، قال: رأيت رجلا تعزى عند أبي بعزاء الجاهلية، افتخر بأبيه، فأعضه بأبيه، ولم يكنه، ثم قال لهم: أما إني قد أرى الذي في أنفسكم، إني لا أستطيع إلا ذلك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من تعزى بعزاء الجاهلية، فأعضوه، ولا تكنوا. وفي رواية: إذا الرجل تعزى بعزاء الجاهلية، فأعضوه بهن أبيه، ولا تكنوا . والحديث صححه ابن حبان، والألباني.

ترجمہ:
"جو شخص زمانہ جاہلیت کی نسبت کے ساتھ اپنے کو منسوب کرلے تو اس کے باپ "ہن” کو کٹواؤ اور اس میں اشارہ کنایہ سے کام نہ لو.”

لفظ کی تشریح:
” ھن” ہر اس قبیح اور بری چیز کو کہتے ہیں کہ جو صاف صاف نام لے کر بیان نہیں کی جاتی اسی لئے اس لفظ کا اطلاق شرمگاہ پر بھی ہوتا ہے۔

اب جواب ملاحظہ فرمائیں:

تخاطب اور کلام کے دو دائرے ہوتے ہیں:
1: روز مرہ کی باہمی گفتگو
معاشرے میں لوگ کون سے لہجے اور الفاظ سے آپس میں گفتگو کریں گے اس کے لیے اسلام نے معاشرتی اصلاح کے لیے حد بندی کی ہے کہ دل آزاری، تہمت، بہتان دشنام طرازی اور گالم گلوچ سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے
چنانچہ اسلام میں گالی دینا، بدزبانی کرنا، بہتان لگانا، فحش گوئی کرنا سختی سے منع کیا گیا:

"عن ابن مسعود – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:((سِباب المؤمن فسوق، وقتاله كُفر))؛ متفق عليه”.
مؤمن کو گالی دینا فسق (گناہ کبیرہ) ہے اور اس کا قتل کفر کے برابر ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔

"آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا عاهد أخلف، وإذا خاصم فجر هل تتفضلون بتوضيح هذا الحديث وخصوصًا: إذا خاصم فجر”۔
آپ ﷺ نے فرمایا:”منافق کی چار نشانیاں ہیں۔جب بولے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،امین بنایا جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے توگالی گلوچ پر اتر آئے ۔

2: دوسرا دائرہ زجر، ڈانٹ، تنبیہ اور سزا کا ہے
ظاہر ہے اس دائرے کے اصول نہ پہلے جیسے ہیں اور نہ زبان و بیان اور نہ سمجھانے کا انداز پہلے جیسا ہے
مثلا: کسی بے گناہ کو قتل کرنا بڑا جرم ہے، مگر قاتل اور ڈاکو کو قتل کرنا قانونی و اخلاقی تقاضا ہے جو کسی طرح بھی اخلاقی ضابطوں کے خلاف نہیں کیونکہ عام حالات میں اخلاقی ضابطے لاگو ہوتے ہیں اور جرم کی صورت میں مجرم پر قانونی سزاؤں کے ضابطے لاگو ہوتے ہیں۔
کسی عام آدمی کا ڈانٹنا، ڈرانا، دھمکانا جائز نہیں غیر اخلاقی کام ہے
لیکن جب مجرم عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے تو وکیل اور جج کی زبان الگ ہوتی ہے، وہاں وکیل یہ نہیں کہتا کہ اس شخص کو عزت و احترام کے ساتھ مجرم قرار دیا جائے، اور نہ جج فیصلہ صادر کرتے وقت عزت و احترام اور عام ادب و تہذیب کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ زبان قانون اور عدالت میں ہرگز نہیں چلتی۔
عام حالات میں کسی کو مجرم نہیں کہا جا سکتا، چور نہیں کہا جا سکتا، ڈاکو اور قاتل نہیں کہا جا سکتا، ریپسٹ اور زانی نہیں کہا جاسکتا مگر عدالت میں اسی باعزت شہری کو ثبوت کے بعد ڈاکو، چور، زانی اور مجرم جیسے برے القاب سے پکارا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا حدیث بھی کلام کے دوسرے دائرے سے منسلک ہے۔
چونکہ اسلام میں قوم پرستی، عصبیت شرک کے بعد سخت ترین جرم ہے اوپر سے کوئی شخص اس پر فخر بھی کرے تو سخت سے سخت تنبیہ ضروری ہے

اسلام میں عصبیت سنگین جرم:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”و لیس منا من مات علی عصبیة“۔(مشکوٰة المصابیح: صفحہ: 417)
ترجمہ:․․”جسے عصبیت پر موت آئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگ اپنے ان باپ دادا پر فخر کرنا چھوڑ دیں جو مر چکے ہیں جن کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دوزخ کے کوئلہ بن گئے ہیں ورنہ اگر فخر کرنے سے باز نہ آئے تو وہ خدا کے نزدیک گوہ کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل وخوار ہوں گے جو گوہ کو اپنے ناک سے ہٹاتا ہے۔‘‘(ترمذی)
اس طرح کی بہت ساری احادیث میں عصبیت جیسی بدبودار بیماری سے معاشرے کو پاک رکھنے کی تعلیمات دی گئی ہیں
اس کے باوجود جو شخص اپنے باپ دادا کے نسب پر فخر کرتا ہے لوگوں کے سامنے بیان کرتا پھرے تو صاحب اقتدار اور اصحاب منصب سخت سے سخت الفاظ سے مذمت کرے تاکہ آئندہ جراءت نہ کرے اس لیے ایسے شخص کو کہا گیا کہ جس نسب پر فخر کر رہے ہو وہ تمہارے منہ میں ہو۔
مگر اس کے باوجود شرمگاہ کے لیے جو لفظ عام استعمال ہوتا ہے وہ زبان پر نہیں لایا گیا بلکہ ادبی لفظ "ھن/بظر” استعمال کیا گیا ہے جو عام زبان میں گالی نہیں ہے مگر عصبیت کے مجرم کے لیے سخت تنبیہی لفظ ہے۔

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles