مسلم ممالک کو مشترکہ کرنسی کی جانب جانا چاہیے

مسلم ممالک کو مشترکہ کرنسی کی جانب جانا چاہیے

مسلم ممالک کو مشترکہ کرنسی کی جانب جانا چاہیے

مسلم مالک و مشترکہ کرنسی کی جانب جانا چاہیے ان خیالات کا اظہار بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے کیا ہے۔مشترکہ کرنسی کے حوالے سے جدوجہد کئی دہائیوں پر مشتمل ہے اس میں ذلفقار علی بھٹو صدام حسین میں معمرقذافی اور ان جیسے کئی عالمی مدبرین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں

سادہ الفاظ میں مشترکہ کرنسی کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنے ممالک یورپی یونین یا ڈالر استعمال کرنے والے ممالک کے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں یا پھر اگر مسلم ممالک مشترکہ کرنسی اپناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپ ڈالر کو شکست دے رہے ہیں اور ڈالر کو چھوڑ کر کوئی اپنی ایک مخصوص مشترکہ کرنسی اپنا کر اسی سے تجارت کر رہے ہیں جس سے آپ کے کاروبار میں ڈالر کا لین دین ختم ہو جائے گا اور آپ کی اپنی کرنسی ہی ڈالر کے مقابلے میں آ جائے گی۔

عالمی طاقتیں ہمیشہ سے کسی بھی مسلم لیڈر کی جانب سے ایسی تجویز کے خلاف رہی ہیں وہ کبھی نہیں چاہتیں کہ کوئی بھی مسلمان ملک مشترکہ کرنسی کی بات کریں۔کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں یورو پہلے ہی موجود ہے لیکن پھر بھی زیادہ اہمیت کا حامل ڈالر ہے۔ جبکہ اب چائنہ بھی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں آ جائے لیکن اگر اسلامی ممالک مل کر ایک مشترکہ کرنسی اپناتے ہیں تو شاید وہ ڈالر کے مقابلے میں جا کر کھڑی ہو کیونکہ مسلم ممالک کی تجارتی حجم کئی بڑے ممالک سے زیادہ ہوگا۔

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles