تحریر: عمران ریاض خان
1: پنجاب حکومت نے گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی من مقرر کرنے کے باوجود خریداری نہیں کی۔
2: کسان مجبورا اپنی گندم اونے پونے مڈل مین اور تاجروں کو لگ بھگ 3000 روپے من خسارے میں بیچنے پر مجبور ہو گیا۔
3: خیبر پختونخواہ حکومت نے اعلان کے مطابق سرکاری ریٹ پر 3900 روپے فی من گندم پنجاب کے کسانوں سے خریدنا شروع کی۔
4: پنجاب حکومت نے اس خریداری اور ترسیل کے راستے میں رکاوٹیں ڈال دیں تاکہ گندم کی خریداری جاری نہ رہ سکے۔
5: کسانوں کے ان ازلی دشمنوں نے پہلے باہر سے اندھا دھند ناقص گندم امپورٹ کروائی جس سے کمیشن اور کرپشن کا بازار گرم ہوا۔
6: پاکستان میں کسان کی گندم تیار کھڑی تھی جب بندگاہ پر جہازوں سے غیر ملکی گندم اتاری جا رہی تھی۔ یہ کسان کا تاریخی معاشی قتل تھا۔
7: اب پنجاب کا کسان (جس نے تاریخ کی مہنگی ترین فصل اگائی کیونکہ ایندھن، بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتیں پی ڈی ایم سرکار نے پہلے ہی آسمانوں پر پہنچا دی تھیں) تاجروں اور سرمایہ داروں کے سامنے بے بس کھڑا ہے۔
8: غریب کسان کے پاس گندم محفوظ یعنی سٹور کرنے کے وسائل بھی نہیں ہیں لہذا وہ صدیوں سے خوشحالی لانے والی اپنی گندم سے جان چھڑا رہا ہے اور کوڑیوں کے بھاؤ اپنے پورے سال کی محنت بیچ رہا ہے۔
9: شریف خاندان کا سارا ریکار ڈ اٹھا کر دیکھ لیجیئے انہیں جب بھی اقتدار ملا یہ ہمیشہ کسان کش اقدامات ہی کرتے رہے ہیں۔
10: انکی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ کسان اپنی محنت اور فصل کے بل بوتے پر خوکفیل ہونے کی بجائے انکی طرف سے ملنے والی امداد پر منحصر رہے۔ کسانوں کا بڑا نقصان کرکے اسے معمولی خیرات دے کر خریدنا ہی انکی پالیسی رہی ہے۔
11: اسوقت پنجاب کے کسانوں کے لیے زمین کا کرایہ اور فصل لگانے کے لیے حاصل کیا قرض اتارنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
12: گودام پہلے ہی غیر ملکی گندم سے بھرے ہیں۔ اس سارے عمل میں روٹی تو چند روپے سستی ہو جائے گی مگر پاکستان کی سب سے بڑی آبادی کسان اور اسکی بچے بری طرح پس جائیں گے۔
13: آج کسان کے لیے اگلی فصل لگانا بھی ایک چیلنج ہے۔ کیونکہ حکومتی اقدام سے انکا اعتماد اور معیشت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
14: ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور کے بعد پہلی بار کسان کو لگاتار 3 سال خوشحالی کے نصیب ہوئے مگر پی ڈی ایم سرکار کے اس ایک جھٹکے نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
15: سال 2024 کو پنجاب اور پاکستان کا کسان شائد کبھی نہیں بھول پائے گا اور نہ ہی اپنے معاشی قاتلوں کے چہروں کو۔۔۔
تحریر: عمران ریاض خان