ایمان اور خوشگوار زندگی
تحریر: ایس ایم شاہ
انسان کی خوشگوار زندگی میں ایمان کا کلیدی کرار ہے۔ باایمان شخص ہمیشہ پراُمید رہتا ہے، وہ اپنے آپ کو ہر وقت کسی ناقابل شکست غیبی طاقت کے زیر سایہ پاتا ہے، وہ مایوسی کو کفر سمجھتا ہے، ایمان انسانی زندگی کو بامقصد زندگی بنا دیتا ہے؛ کیونکہ وہ روح اور بدن کی جدائی یعنی موت کو ابدی ہلاکت نہیں سمجھتا بلکہ اسے عارضی زندگی سے حقیقی زندگی کی طرف ایک سفر قرار دیتا ہے، باایمان شخص پر اگر زندگی میں کچھ مصائب و آلام آ بھی جائیں تو وہ پریشان حال نہیں ہوتا، کیونکہ اسے ایمان اور یقین ہے کہ دنیوی مشکلات اخروی آسائشوں کا پیش خیمہ ہیں۔ پریشانی کے مختلف اسباب و علل ہیں؛ کبھی انسان مال کی کمی کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے،
بسا اوقات صحت خراب ہونے کے باعث بے چین ہوتا ہے، گاہے بہ گاہے کسی عزیز کی فوتگی کے باعث مضطرب ہوتا ہے، کبھی کبھار اولاد کے نہ ہونے کے سبب سے بے سکون ہوتا ہے، لہذا مؤمن کبھی ذہنی الجھنوں کا شکار نہیں ہوتا، نفسیاتی مریض نہیں بنتا؛ کیونکہ نفسیاتی مریض انسان تب بنتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو ہر حوالے سے بے سہارا پاتا ہے اور کسی مسیحا کے موجود ہونے سے مایوس ہو جاتا ہے، جبکہ باایمان انسان اللہ پر مکمل بھروسہ رکھتا ہے اور اسے دلی یقین ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے، اس سے میرا خالق واقف ہے، وہ مجھے کبھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔
کرونا اور کینسر جیسی بیماریاں باایمان شخص کے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتیں؛ کیونکہ باایمان شخص ان تمام امور کو اللہ کریم کی طرف سے امتحان قرار دیتا ہے، اسے مکمل یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہا ہوں اور کسی حوالے سے بھی میں نے کوتاہی نہیں بھرتی ہے، لہذا میرا کامل ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا خالق و مالک، رحمن و رحیم اور عدل و انصاف والی ذات ہے اور وہ ہزار ماؤں سے بھی زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا، شفقت کرنے والا اور میرا خیال رکھنے والا ہے، لہذا وہ جو بھی فیصلہ میرے بارے میں کرے تو وہ فیصلہ میری فلاح و بہبود کی خاطر ہی ہوتا ہے، وہ ذات ان امتحانات کے ذریعے میری ابدی زندگی کو سنوارنا اور اخروی زندگی میں میرے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ ایمان انسان کو ہر وقت دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنے کی تلقین کر رہا ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اگر میں دوسروں کے حقوق کی رعایت نہیں کروں گا تو میرا خالق مجھ سے ناراض ہوگا، کیونکہ میرا خالق اپنے حق سے زیادہ حقوق الناس کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، اگر میں لوگوں کے حقوق کی رعایت نہیں کروں گا تو میری ابدی زندگی میں مجھے اس کی ایسی سزا بھگتنی پڑے گی کہ جس کا دنیوی سزا سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
درنتیجہ باایمان شخص کبھی دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتا، بنابریں لوگوں کے درمیان میں وہ حقوق الناس کی رعایت کرنے والا معروف ہو جاتا ہے، یوں سماج میں اس کی عزت و توقیر بڑھ جاتی ہے اور اس کی مال و دولت میں بھی برکت آجاتی ہے۔ اِس طرح اُس کی دنیوی زندگی بھی باعزت گزر جاتی ہے اور اخروی ابدی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ ایمان انسان کو بیکار رہنے نہیں دیتا، کیونکہ باایمان شخص کے لیے یہ ننگ و عار ہے کہ وہ اپنا بوجھ کسی دوسرے شخص پر ڈال دے۔ ایمان انسان کو بداخلاقی، بدتیزی، بدسلوکی اور بدزبانی سے بچائے رکھتا ہے؛ کیونکہ اس کا راسخ ایمان ہے کہ میرے اعضاء و جوارح سے جو حرکات و سکنات انجام پا رہی ہیں،
وہ سب خدا کے حضور مجھ سے سرزد ہو رہی ہیں، لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس حاضر و ناظر ذات کے سامنے میں اس طرح کی برائیوں کا مرکتب ہو جاؤں۔ باایمان شخص کو جب بھی کوئی نعمت ملتی ہے تو اس کا شکر بجا لاتا ہے، ان نعمتوں کے بارے میں اس کا ایمان ہے کہ یہ سب میرے رب کی عطا ہیں، جہاں فقر و تنگدستی ایک امتحان ہے، وہیں یہ جو نعمتیں مجھے دی گئی ہیں، درحقیقت یہ بھی میرا ایک کڑا امتحان ہیں؛ تاکہ میرا رب یہ دیکھے کہ میں ان نعمتوں کو کس راہ میں خرچ کرتا ہوں؛ کیونکہ یہ مال اللہ رب العزت کی طرف سے میرے پاس ایک امانت ہے، اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ان امانتوں کو حق داروں تک پہنچا دوں۔ لہذا مؤمن ان نعمتوں میں غرق ہوکر فقط اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔
درنتیجہ اسے ایک ذہنی اور نفسیاتی سکون نصیب ہوتا ہے، معاشرے کے کمزور طبقے کی مدد بھی ہو رہی ہوتی ہے، حق داروں تک جب ان کا حق پہنچتا رہتا ہے تو سماج میں عدل و انصاف کی فضا حاکم ہو جاتی ہے، یوں معاشرے میں طبقاتی نظام بھی وجود میں نہیں آتا۔ باایمان شخص خاص اوقات میں اپنے خالق کی عبادت بجا لانے کو اپنا فریضہ گردانتا ہے، یوں وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے خالق حقیقی سے لَو لگاتا ہے، جس سے اسے ذہنی سکون ملتا ہے؛ کیونکہ جہاں جسم کی غذا کھانا پینا ہے، وہیں روح کی غذا عبادت و ریاضت و دعا ہے۔ جس طرح مناسب غذا سے انسانی جسم بہتر انداز سے نشوونما کرتا ہے، اسی طرح تسلسل سے عبادت کی بجاآوری سے اس کی روح بھی بہتر انداز سے نشوونما پاتی ہے، جب روح ایک خاص درجے تک تقویت پا جاتی ہے تو اس کے بعد انسان کے اندر ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اسے دنیا کے لذیذ ترین کھانوں اور بہترین مشروبات سے زیادہ عبادت و ریاضت و دعا میں لطف محسوس ہونے لگتا ہے،
اس کیفیت کو وہی شخص درک کرسکتا ہے کہ جس کے اندر یہ کیفیت طاری ہوگئی ہو، شاید یہ لطف پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں کو مال و دولت کی ریل پیل اور کرسی اقتدار پر براجماں ہونے کے باوجود بھی زندگی میں لمحے بھر کے لیے نصیب نہ ہو۔ دنیا میں ہر انسان کی یہ خواہش و کوشش ہوتی ہے کہ مجھے پرسکون اور خوشگوار زندگی نصیب ہو، ایسی زندگی اور دنیا و آخرت دونوں میں سعادت باایمان زندگی میں مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کی حالت میں جینے اور ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہونے کی توفیق دے۔آمین!