شروع سے ہی یہ غلط روایت چلی آ رہی ہےکہ پاکستان افغانستان کا دشمن ہے
شروع سے ہی یہ غلط روایت چلی آ رہی ہےکہ پاکستان افغانستان کا دشمن ہے یہ کہ پاکستان افغانستان میں مضبوط اور مرکزی حکومت نہیں چاہتا اور اسے اپنا نقصان گردانتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روایت افغانی کمینسٹوں، سوویت یونین کے غلاموں اور ان کی پیروی میں جمہوریوں اور صلیبیوں کے غلاموں نے ایجاد اور رائج کی تاکہ عام اور محب وطن افغانیوں کے احساسات و جذبات کا استحصال کیا جائے اور اس برے مقصد کے ذریعے سوویت اور صلیبی حملہ آوروں سے لڑنے والے افغان مجاہدین کے خلاف انہیں کھڑا کیا جائے یا پھر اپنا محافظ ہی بنا لیا جائے۔
پاکستان مخالف روایت ایجاد کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ سوویت اور صلیبی استعمار کا اپنے غلاموں کے ساتھ ان سادہ لوح نوجوانوں کے خون، گوشت اور ہڈیوں کے استحصال کے لیے کوئی معقول مقصد اور سوچ موجود نہیں تھی، ان خارجی حملہ آوروں اور ان کے افغانی غلاموں نے پاکستان کے خلاف اتنا پراپیگنڈہ کیا کہ بہت سے لوگوں نے سوویت یونین اور صلیبیوں کے حملے، تباہی اور قتل عام کو نظر انداز کر دیا، لیکن غلام حکومتوں کی چوکھٹ پر پاکستان پر قبضے کے ناممکن شوق میں کھڑے رہے، اور اس راہ پر لاکھوں جانیں ضائع گئیں۔ انہیں پاکستان سے دشمنی کا اتنا نشہ چڑھ گیا تھا کہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ اس نشے میں وہ اپنے افغان مجاہدین بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں جو اسلام اور افغان کی فلاح اور آزادی کے لیے اپنی جانیں فدا کرتے ہیں۔
لیکن ان نوجوانوں کو اتنا سادہ بھی نہیں سمجھا جا سکتا، کسی کو مرنے کے لیے راضی کرنا کوئی آسان کام نہیں، واقعی اور حقیقی دلائل کی ضرورت بھی ہوتی ہے، اگر میں افغانی بن جاؤں اور کوئی افغانستان کی جنگ کو پاکستان کا دفاع سمجھے اور میں مان لوں کہ پاکستان کی بقا افغانستان کی جنگ میں مضمر ہے، اپنے پراکسی لشکروں، جنگجوؤں اور ان افراد کو پاکستان کے قومی مفادات کے لیے افغانستان کے قومی مفادات کے خلاف استعمال کرنا ہر محب وطن کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے اور یہ جذبات کسی کو بھی اندھا کر سکتے ہیں۔
اگر کوئی افغانی یہ شکوہ کرتا ہے کہ پاکستان اپنے بعض ہتھکنڈوں اور پراپیگنڈوں کے ذریعے ان باطل عزائم کو تقویت دے رہا ہے جن کی وجہ سے استعمار کے غلاموں نے افغانیوں اور ان کے نوجوانوں کے جذبات و احساسات کو یر غمال بنایا، جس کے نتیجے میں انہوں نے اس راستے پر ایک طرف لاکھوں لوگ قتل کیے تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کے مفاد کے لیے افغان جہاد و قتال کے رہنماؤں کو شہید کیا اور معمولی دنیاوی فائدے کے لیے حق کے راہیوں کو پکڑا، گرفتار کیا، قتل کیا اور ان کی معلومات کفار کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اور پاکستان یہ کام اس لیے کرتا ہے تاکہ افغانستان میں لگی آگ کا زور ایک طرف نہ ہو جائے، پڑوس میں ایک اور آگ تازہ، بھڑکتی ہوئی اور مہلک رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانی بھائی کا یہ شکوہ بجا ہو گا، اور اس کی نفرت بھی بے جا نہیں جس کا پاکستان خود کو حقدار تصور نہیں کرتا۔ میرا یقین ہے کہ ان کرائے کے قاتلوں سے حساب ضرور لیا جائے گا، اور اس وقت پاکستانی عوام کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔
افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ ممالک ہیں، ان کا جغرافیہ، جذبات، زبان، ثقافت، عقیدہ اور دین مشترک ہیں۔ جدائی کے راستے کم ہیں لیکن اتحاد کے سینکڑوں اسباب ہیں۔ لیکن پھر بھی پاکستان میں افغانیوں کے درمیان پاکستان کے حوالے سے جذبات اور نفرت کی موجودگی کے حوالے سے باتیں ہوتی ہیں، ہم پاکستانی افغانیوں پر الزام لگاتے ہیں حالانکہ ہم نے کبھی بھی اس موضوع کا دقیق انداز میں تجزیہ نہیں کیا۔
سوویت قبضے کی شکست کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کی قیادت پاکستان نے کی، اور پاکستان نے یہ سب کچھ مغربی اشاروں پر کیا، جس طرح اس نے سوویت قبضے کے خلاف جہاد میں اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر مجاہدین کی منظم مدد کی۔ بالکل اسی طرح صلیبی حملہ آوروں کی شکست کے بعد اب پاکستان مغرب کے اشارے پر افغانستان کے ساتھ تنازع بنائے ہوئے ہے۔
ورنہ افغانستان کے موجودہ نظام کے ساتھ پاکستانی حکومت کا مسئلہ کیا ہے؟ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی طالبان کا معاملہ بڑھ گیا ہے لیکن مغرب کی جانب پاکستانی احکام کا آنا جانا، چین اور ایران کے خلاف حالیہ سفارتی اور سکیورٹی پیش رفت، خطے کے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات، مغرب کے پیدا کیے ہوئے داعشیوں کے ساتھ تعلقات، اور مغرب کی خوشنودی کے لیے واضح انداز میں الزام تراشیوں کے بعد کوئی بھی عقلمند انسان یہ نہیں مان سکتا کہ ان دونوں قوموں کے درمیان مضبوط تعلقات ایسے معمولی بہانوں سے توڑے جا سکتے ہیں، اگر یہ فوجی جرنیلوں کے ذاتی مفادات نہیں ہوتے تو پاکستان اس عظیم قوم کے مفادات کو، جو افغانستان کے ساتھ ہیں، قربان کیوں کرتا؟
اسی طرح افغانستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے معاملے کا حل پاکستانی فوج جس طرح سے چاہتی ہے وہ معقول نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ پاکستان اس لیے اس بڑے موضوع کے نامعقول حل پر اصرار کر رہا ہے تاکہ امارت اسلامیہ کو اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ جنگ میں پھنسا دے اور خود بیٹھ کر تماشہ دیکھے، اس طرح کہ افغان حکومت پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی ایسا اقدام کرے جس کا پاکستان نے مطالبہ کیا ہو تو نہ صرف یہ کہ افغانیوں کی وہ ذہنیت جسے پچھلے بیس سالوں میں صلیبی حملہ آوروں کے غلاموں نے پروان چڑھایا ہے (کہ طالبان پاکستان کے غلام ہیں) وہ حکومت پر تنقید کرے بلکہ ممکن ہے کہ بغاوتیں بھی اٹھ جائیں۔ دوسری طرف پاکستانی طالبان بھی اپنی بندوقوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیں۔ ایک ایسے وقت میں جب افغان حکومت کا پوری دنیا میں کوئی دوست نہیں، پاکستان سمیت پوری دنیا اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی طریقے سے اس حکومت کو گرا دیا جائے، تو اسباب کی دنیا میں یہ بات کیسے معقول ہو سکتی ہے کہ پوری دنیا سے دشمنی کے ساتھ تمام مسلمانوں کے ساتھ بھی دشمنی کر لے، دوستوں کو بھی اپنا دشمن بنا لے۔
پاکستان نے افغانستان پر فضائی حملے کیے، ایک ایسے ملک کی علاقائی سالمیت اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کا، جو ابھی ابھی جنگ سے نکلا ہے اور پاکستان سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، کوئی جواز نہیں بنتا، اور نہ ہی افغانستان پر بمباری سے پاکستانی عوام کی ذہنیت بدلی جا سکتی ہے، اس کی صرف یہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ فوج مغرب کے اشارے پر ایسے اقدامات کر رہی ہے جس کا مطلب ایک بڑی جنگ کو ہوا دینا ہے۔ ایسی جنگ افغانستان کو تو تباہ نہیں کر سکتی لیکن پاکستان کے غرق ہوتے بیڑے کو مزید غرق کر دے گی، جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام اور حکومت کو تو بہت بڑا نقصان ہو گا لیکن اس کا فائدہ فوج کے بعض کرائے کے قاتل بٹوریں گے۔
آخر میں یہ کہتے چلیں کہ یہ روایت جو افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے قائم ہوئی ہے اور اس کا پرچار ہوا ہے، مذکورہ بالا اور دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر بے جا بھی نہیں، ہم نے افغانستان کے ساتھ دوستوں کی طرح سلوک نہیں کیا، اور جو بھی احسانات ہم ان کے سر ڈالتے ہیں، وہ سٹریٹیجک، سیاسی اور عارضی تھے اور نیک نیتی پر مبنی نہیں تھے۔
اس کے علاوہ ہم نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی کہ افغانستان میں مشہور پاکستان مخالف روایت کے خلاف کوئی حقیقی اقدام کریں اور نہ ہی ہم نے افغانیوں کے دل و دماغ جیتنا ضروری یا اہم سمجھا، ہمارے حکمرانوں نے افغانیوں کو اپنی شان و شوکت کے ساتھ غیر مساوی اور غیر مسابقتی قوم گردانا، اور اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کے اذہان و افکار پر کام کیا جائے، عین ممکن ہے کہ پاکستان مغرب کے غلام اور خطے میں ایک فعال کرائے کے سپاہی کے طور پر افغانستان کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے تاکہ مغرب اپنے اس سپاہی کے ذریعے افغانستان کو مشرق سے جدا کرے اور خود افغانستان میں مغرب کے مفادات کو لاحق خطرات کو کنٹرول کرے۔