ہم اردو والے
نام عمارہ کنول
بانی و سرپرست تحریک دفاع قومی زبان و لباس ،
عنوان : ہم اردو والے
جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے اس وقت سے آج تک پاکستانی قوم ایک ان دیکھی ذہنی غلامی کا شکار ہے اور مجھے افسوس ہے کہ قوم اس غلامی پر فخر کرنے لگی ہے –
انگریز خود تو برصغیر سے چلے گئے مگر ہمیں ذہنی غلامی کا مقید رکھنے کے لئیے پکا بندوبست کر گئے ،اس بندوبست کا دوسرا نام انگریزی ہے یہ غلامی کی یادگار ہے –
انگریزی ہم 25 کروڑ پاکستانیوں کو دو طبقات میں تقسیم کرتی ہے -ایک طبقہ اردو دان ہے دوسرا انگریزی کا پرچار کرنے والا انگریزی سے متاثرہ طبقہ ہے –
انگریزی کا مداح طبقہ اقلیت میں ہے -جبکہ اردو دان طبقہ اکثریت میں ہے- اردو پاکستان کی 80% فیصد اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے –
اقلیت کی پسند کو اکثریت پر جبری مسلط کرنا زیادتی ہے –
وہ لوگ جو انگریزی لکھتے ہیں پڑھتے ہیں بول سکتے ہیں اس پر فخر کرتے ہیں -ان کو ایک بات واضح کر دوں کہ آپ کتنی ہی اچھی انگریزی کیوں نہ بول لیں آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ،مگر آپ پاکستانی ہی رہیں گے آپ انگریزی بولنے سے کبھی انگریز نہیں بن سکتے –
تو اس پر فخر کیسا ؟
بچے تو بچے میں ایسے اساتذہ کو جانتی ہوں جو کہتے ہیں ہمیں انگریزی میں مہارت نہیں مگر ہم مجبور ہیں -نصاب انگریزی میں ہے ہم اچھے سے پڑھا نہیں پاتے اور طلبہ و طالبات پڑھ نہیں پاتے –
وطن عزیز میں ذہانت ماپنے کا واحد ذریعہ یہ رہ گیا ہے کہ آپ انگریزی میں کتنے ماہر ہیں یہی سوچ وہ غلامی ہے جس کا ہمیں شعور تک نہیں ہے -اور ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی خوشی اور شوق سے انگریزی کی محبت میں مبتلا کر رہے ہیں –
ہم یہ بھول رہے ہیں کہ انگریزی کا عروج اردو کا سوال ہے –
فرض کریں ایک ناخواندہ بزرگ شہری شخص کسی کام کے لئیے دفتر جائیں اور دفتر کے باہر
FBR,NADRA,IESCO
NAB’LESCO
NEPRA,PEMRA
اور دیگر اداروں کے نام ان کی تختیاں انگریزی میں ہیں ،اور اگر کوئی کام یا شکایت ہے ان کو فارم انگریزی میں پر کرنا پڑے تو ان کو کس قدر مشکل ہوگی ؟
اسی طرح اگر ادارے کی تختی اور فارم اردو میں ہو ان کو کتنی سہولت ہوگی –
اردو کی خوبصورتی اور اہم ہونے کے لئیے یہی کافی ہے کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اردو با آسانی پڑھ لکھ اور بول سکتا ہے –
اردو آپ کی شناخت آپ کی پہچان ہے-
اپنی پہچان گم نہ کریں انگریزی کے مصنوعی سہارے آپ کی نسلوں کو غلام بنا رہے ہیں پھر وہ غلام ابن غلام ،ابن غلام ،ابن غلام تو کہلائیں گے آزاد باشعور شہری نہیں –
کیونکہ شعور عروج اور آزادی کا اصل نام اردو ہے -اپنے اصل کی طرف لوٹنے میں عافیت ہے- آج نہیں تو کل ایسا کرنا پڑےگا اور یہی وقت کی ضرورت ہے-
یہ پاکستانی عوام کا وہ حق ہے جو جج جواد خواجہ اپنے فیصلے میں پاکستانی عوام کو دے چکے ہیں –
انہوں نے اپنے فیصلے میں اردو کے نفاذ کا حل دیا ہے قوم جواد خواجہ کے اس فیصلے پر ان کو سلام پیش کرتی ہے –
اور یہ پاکستانی عوام کا وہ حق ہے جو جلد یا بدیر ان کو دینا ہی پڑے گا -جتنی جلدی دیا جائے یہ خوش آئند ہوگا –
اور مجھے یقین ہے کہ
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا ،
جہاں سے چاہیں گے ،رستہ وہیں سے نکلے گا ,
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے ،چشمہ یہیں سے نکلے گا
پاکستان ذندہ باد