کامیابی کی چابیاں
کامیابی کی چابیاں
ہر انسان کامیابی کا خواہاں ہے۔ دنیا میں عام طور پر کامیابی کے جو راستے اور اصول دکھائے جاتے ہیں ان سب کا محور دنیا کی چند روزہ زندگی ہوتا ہے۔
اسی طرح ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے اور اگر مر بھی جائے تو کم از کم اس کا نام اور اس کے آثار ہمیشہ باقی رہیں۔ اسلام نے کامیابی کا جو معیار دیا ہے وہ فقط چند روزہ دنیوی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کی حقیقی کامیابی دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کے بعد آخرت کی ابدی زندگی کو سنوارنا ہے۔اس کامیابی کا بنیادی عنصر ایمان ہے۔ ایمان کے بغیر زندگی بے مقصد، کھوکھلی اور فقط حیوانی بن جاتی ہے۔ بےایمان شخص بے لگام گھوڑے کے مانند ہے۔
ایمان انسان کے دل میں امید کی کرن روشن رکھتا ہے۔ ایمان انسانی زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔ ایمان انسان کو ناامیدی سے بچاتا ہے۔ ایمان انسان کی نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ ایمان انسان کو بدبینی سے بچاتا ہے۔ ایمان انسان کو ہر کام سے پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایمان انسان کو تحمل مزاجی کے ساتھ مصائب و آلام سے نجات پانے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ ایمان اخلاقی آفتوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔
ایمان انسان کو احساسِ تنہائی سے امان دیتا ہے۔ ایمان انسان کو ایک ایسی لامحدود ذات سے منسلک رکھتا ہے جس کی قدرت، جس کا علم، جس کی رحمت، جس کا لطف و کرم، جس کا فیض، جس کی عطا اور جس کی بخشش کی کوئی حد نہیں اور جس کی الفت و محبت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس ذات سے انسان جتنا مانگے اتنا ہی وہ ذات خوش ہوتی ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ہزار ماؤں سے زیادہ شفیق ہے۔ وہ کمال مطلق ہے۔
وہ ترکیب سے خالی اور جسم و جسمانیت سے عاری ہے۔ وہ نہ زمان و مکان کی حدوں میں سمو سکتا ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے۔ تمام موجودات اس کے محتاج ہیں اور وہ غنی محض ہے۔ کسی کی قوتِ بصارت میں اس کے جلوۂ کمال کو دیکھنے کی طاقت نہیں۔ تمام صفات ثبوتیہ کی حامل اور تمام صفات سلبیہ سے پاک و مننزہ ذات احدیت کا نام اللہ ہے۔ کائنات کے حسن و جمال کی تمام تر رعنائیوں کے مجموعے کا نام اللہ ہے۔
عشق و محبت کے آخری زینے کا نام اللہ ہے۔ علم و قدرت و حیات کے سرچشمے کا نام اللہ ہے۔ صدق و صفا کے چشمے کا نام اللہ ہے۔فضل و کرم، جود و سخا اور کمالِ تکلم کے آخری درجے کا نام اللہ ہے۔ ارادہ و اختیار کے اصلی خزینے کا نام خدا ہے۔ ازلی و ابدی تصور کے بے انتہا سلسلے کا نام اللہ ہے۔ جس نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔ انسان کو عدم سے وجود میں لاکر اشرف المخلوقات اسی نے قرار دیا۔ انسان کسی چیز کا مستحق نہیں تھا اسی نے انسان کی خاطر پوری کائنات کو خلق کیا۔
ایمان کے حساب سے انسان کی اپنے خالق سے محبت بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے وجود میں تواضع و فروتنی کی صفت آجاتی ہے۔ مؤمن انسان اپنے آپ کو ہر وقت اللہ کے زیر نظر پاتا ہے۔ چنانچہ وہ پریشان نہیں ہوتا کیونکہ جس کے ساتھ خدا ہو اسے پریشانی کس بات کی۔ مؤمن انسان ہر اہم کام کے لیے بھرپور طریقے سے اپنی کوشش کرتا ہے پھر اس کے انجام کو خدا پر چھوڑتا ہے۔
بنابریں کسی بھی حوالے سے اسے پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری نبھا لیتا ہے۔ ایمان انسان کو تمام برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا خالق ہر عمل پر نظر رکھتا ہے۔ ایمان انسان کو ایک ذمہ دار انسان بناتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ میرے بابصیرت خالق نے مجھے بے مقصد خلق نہیں کیا ہے۔ باایمان شخص ظالم نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ کل کو مجھے قہار ذات کو اپنے کیے کا مکمل حساب دینا ہے۔
ایمان انسان کو ہر اچھے کام میں پہل کرنے پر آمادہ کرتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ میرا خدا میری ہر نیکی کے بدلے میں کم از کم دس گنا بدلہ ضرور چکائے گا۔ ایمان انسان کو خود پسندی کے بجائے خدا پسند، متکبر بننے کے بجائے متواضع، جاہل رہنے کے بجائے علم دوست، مفسد بننے کے بجائے مصلح، بداخلاقی کے بجائےبااخلاق، جھوٹ بولنے کے بجائے حق گو، دھوکا دہی کے بجائے امانت دار، مکر و فریب کے بجائے وعدہ وفا کرنے والا،
بے وفائی کے بجائے با وفا، ملاوٹ کے ساتھ اور دوگنی قیمت پر چیزیں بیچنے کے بجائے خالص اور مناسب قیمت پر چیزیں بیچنے والا، بے حیائی کے بجائے باحیا، بے پردگی کے بجائے باپردہ، بے غیرتی کے بجائے باغیرت، بے مرورتی کی بجائے بامروت، بے حسی کے بجائے بابصیرت اور بےعفتی کے بجائے باعفت بناتا ہے۔
ایمان اس جدید ترین ہتھیار کا نام ہے جس کے ذریعے مغربی ثقافتی یلغار کا بہترین انداز سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ایمان اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا نام ہے جو ہر قسم کی برائی کو سماج میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ ایمان اس ناقابل تسخیر طاقت کا نام ہے جس کے ذریعے ظالموں، جابروں ، غاصبوں، ڈکٹیٹروں، سرکشوں، یہودیوں، کافروں اور ملک و ملت کے دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
ایمان اس غیبی طاقت کے محور سے منسلک رہنے کا نام ہے جس کے ذریعے باایمان افراد تعداد میں کم ہونے کے باوجود اکثریت پر اور ظاہری اعتبار سے کم طاقتور دکھائی دینے کے باوجود سپر طاقتوں پر غلبہ پا سکتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت حال ہی میں فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی نمائندہ جماعت حماس، یمن کی انصار اللہ اور لبنان کی حزب اللہ نے قبلہ اول پر قابض اسرائیل اور اس کی پشت پناہ سپر طاقت ہونے کے نشے میں دھت امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف پیش کیا۔ تمام اسلامی ممالک کے حکمران اسرائیل پر زبانی بمباری کرتے رہے۔
واحد اسلامی ملک ایران ہے جس نے کھلم کھلا حماس کو اسلحہ سمیت جدید ترین میزائل فراہم کرنے اور ایک کروڑ سے زیادہ افراد فلسطین میں جانے کے لیے باقاعدہ سرکاری طور پر نام اندراج کرکے چوکس رہنے کے باوجود نام نہاد سپر طاقتیں ان کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں۔ البتہ اکثر اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات سے بائیکاٹ، فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجات اور سوشل میڈیا پر فلسطینی مسلمانوں کا بھرپور دفاع کرنا بہت ہی لائق تحسین امر ہے۔
اگر امت مسلمہ بالخصوص مسلم حکمران مغربی ممالک کے خوف کو دل سے نکال کر فقط خوفِ خدا کو دلوں میں جگہ دے اور ایمانی تقاضوں کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ ہر میدان میں مسلمانوں کی مدد کرے گا ورنہ مغربی طاقتوں کی غلامی کی زنجیریں دن بہ دن مضبوط ہوتی جائیں گی۔
اگر کوئی شخص باایمان ہونے کے باوجود بھی کامیابی و کامرانی اس کے قدم نہ چومے تو اس میں ایمان کا کوئی قصور نہیں بلکہ اسی شخص کا ایمان راسخ نہ ہونا اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ کرنا ہے۔ بنابریں کامیابی کی اصلی چابی اللہ، اللہ کے رسولوں، ائمہ اہل بیت اور قیامت پر کامل ایمان ہے بشرطیکہ مؤمن ایمان کے تقاضوں پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو جائے۔