وحی /عقل /جزبات 

وحی /عقل /جزبات 

وحی /عقل /جزبات

(انسانی رہنمائی کے وسائل کا ایک تجزیہ )

انسان کی رہنمائی کے لیے اسلام کا طے کردہ طریقہ ایمان بالغیب ہے جسکو ایمانیات یا مغیبات کی اصطلاح سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اسلام میں مغیبات پر ایمان کے لیے بنیادی وسیلہ وحی ہے ۔خواہ وہ متلو ہو یا غیر متلو (احادیث )۔

لامذہبی فلاسفی اور فلاسفہ کے یہاں اس وسیلہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

عقلیات : اسلام میں عقل کا اپنا طے شدہ مقام ہے یعنی ایسی عقل کی تعریف کی گئی ہے جو اسلامی اور شرعی احکامات کے تابع ہو ۔ایسی عقل جو معرفت الٰہی کا سبب بنے ، اللہ کی نشانیوں میں غور وفکر کے لیے استعمال ہو، احکام الہی کی روشنی میں مصالح کا ادراک کرے اور مفاسد سے بچے ۔

عقلیات کے حوالہ سے جدید فلاسفہ کے افکار پر غور کیا جائے تو انکے متنوع نظریات ملیں گے ۔بہت سے فلاسفہ "استدلال پرست” ٹھیٹھ Rationalism کے پیروکار کہلاتے ہیں ۔انکے یہاں عقل "جزبات اور خیالات ” کے مقابلہ میں غالب شیئ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ایسے فلاسفہ کے یہاں عقل ہی واحد ذریعہ ہے جو انسانی مصالح کے پیمانہ تجویز کرے ۔

سماجی اقدار کی تشکیل ایک فرد کی انفرادی عقل کریگی یا اجتماعی شعور ؟؟؟

مغرب میں تحریک تنویریت کے بعد اس حوالہ سے بھی متنوع نظریات کا پرچار کیا گیا ہے۔

جو لوگ انفرادی عقل کو صحیح غلط کے پیمانہ کی تجویز کے لیے چنتے ہیں انکے یہاں انسانی فطرت اور اسکو بطور پیمانہ طے کرنے کی بڑی مفصل بحث دیکھنے کو ملتی ہے بعض فلاسفہ کے نزدیک ” انسانی فطرت ” حقیقتا منبع خیر ہے ۔فطرت انسانی ہی اس قابل ہے کہ اسکو تعیین خیر وشرکے لیے معیار بنایا جائے ۔

جنکے یہاں اجتماعی شعور کو پیمانہ تسلیم کیا گیا ہے انکے یہاں انسان فطرتاً برا واقع ہوا ہے ۔ انسان فطرتا بہائم سے بھی گر پڑا ہے ۔

جبکہ اسلام انسانی فطرت (سلیمہ ) کو ایک نیک مقام دیتا ہے ۔ لیکن فطرت کی تعیین اور کونسا امر فطری ہے یہ شارع کے زمہ ہے ۔اسلامی احکامات کو ہی فطرت سلیمہ بھی شمار کیا گیا ہے۔

فلسفہ جدید میں "استدلال پرستوں” نے دل کا مقام اور فطری جزبات کی بلکل رعایت نہیں رکھی ۔ جسکی وجہ سے انکی اکثر فلاسفی وقت سے پہلے بوسیدہ ہوگئ اور زمانہ کے ساتھ نہیں چل سکی ۔ یہاں دہریت اور الحاد کی فضاء بنسبت "خیالات پرست اور جزبات پرستوں ” کے زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔

لامذہبی فلاسفہ کی ایک قسم "خیالات پرست ” یا جزبات پرست بھی ہے انہوں نے تصور خیر وشر کے لیے انسانی جزبات کو بطور پیمانہ تسلیم کیا ہے ۔اور راجح قرار دیا ہے مگر وحی الٰہی کی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ انسان کی فطری شہوات ،نفسانیات ،بہائمی صفات کے درمیان اور انسان کے نیک جزبات کے درمیان فرق نہیں کرسکے جسکے نتیجہ میں ایسی فلاسفی بھی الحادیت کا شکار ہوئی ۔”تحریک رومانیت ” romanticism بھی دراصل "خیالات پرستوں” کی طرف سے برپا کی جانے والی تحریک تھی ۔ جس جی حقیقت سب کے سامنے موجود ہے کہ کس طرح اس تحریک کے نئے گماشتوں نے آرٹ اور ادب کے نام پر فلم ڈرامے اور فحاشی کو پروموٹ کرکے دنیا کو بے حیائی سے گدلا کر رکھا ہے ۔

خیالات پرستوں نے "مذہب فطرت” کا بھی بڑا پرچار کیا ہے اور یہ باور کروایا ہے کہ انسان فطرتاً نیک ہے اور خیر وشر کے اور مصالح اور مفاسد کی تعیین کے لیے کسی دوسرے وسیلہ کی ضرورت نہیں ۔ جسکی وجہ سے ایسے فلاسفہ نے بھی وحی کو مسترد کردیا ہے ۔

اسلام میں جزبات کا بھی ایک مقام رکھا گیا ہے ۔مگر فطری جزبات بھی وحی الٰہی کی روشنی میں متعین کیے گئے ہیں۔ مثلا محبت کرنی ہے تو اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ والدین سے اور نفسانی محبت کے لیے نکاح کو مشروع کیا گیا ہے اور میاں بیوی کی محبت کو ایک پاکیزہ رشتہ قرار دیا گیا ہے ۔

مومنین کے نیک جزبات کو باقی رکھنے اور انمیں ایمانیات کی روح پھونکنے کے لیے فضائل کے ذریعہ قرآن واحادیث میں جا بہ جا تحریض کی گئی ہے ۔جس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ "وحی الٰہی کے تابع ایک جزباتی مومن ” اسلام میں پسندیدہ ہے جو اسلامی احکام کی تعمیل میں اپنی عقل کو پس پشت ڈال دے اور جو خدا حقیقی کی منشاء ہو وہ کرگزے ۔

یاد رہے فلسفہ جدید کے نظریہ ” تخیل پرستی ” اور اسلام کے یہاں تحریض کردہ جزباتیات میں فرق ہے ۔اسلام کے یہاں مذکور امور کی تعین اسلام اور شارع کرتا ہے نہ کہ انسان کی انفرادی عقل اور نہ ہی سماج کا اجتماعی شعور ۔

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles