نوجوان نسل کے مسائل
علامہ یوسف سیجا کے ساتھ قرآن و سنّت کی تعلیمات کی روشنی میں سوال جواب کا سیشن ..
پہلا حصّہ ..
ابو حیان سعید .
سوال: کیا آج کے نوجوان کا مسئلہ معیشت ہے ؟ کیا وہ معاشی مسائل کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ؟
جواب: آپ اقوام گذشتہ کی داستانوں کو اٹھا کر دیکھ لیں فرد کی زندگی کےبظاہر دو ہی پہلو آپ کو منظر پر نظر آئیں گے میزان کے ایک پلڑے کو انسان کی معاشی زندگی کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو انسان کی اخلاقی زندگی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔انسان انہی کو اپنا ضروری اور بنیادی مسئلہ قرار دیتا ہے۔ انسانوں کے یہ دو مسئلے کبھی بھی حل نہیں ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کا حل کچھ یوں بتلایا ہے سورہ نحل آیت نمبر 52 ﴿وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ﴾اور اسی کی اطاعت ہے ہمیشہ یعنی کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ بھی ہے سب اس کے مقرر کردہ پروگرام کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ابتداء آفرینش سے جب آدم نے متمدن زندگی گزارنا شروع کی تھی تب سے انہی دو مسائل کا وہ رونا روتا رہتا ہے اور اسی کے حل کی وہ آرزو کرتا رہتا ہے اور انہی دو مسائل کا حل قران مجید نے بتایا ہے۔کہ یہ تو ایک پروگرام ہے اور یہ پروگرام اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں کسی فرعون قارون ہامان آزر کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس میں اللہ کے عبد کسی دوسرے کو انداد بنا سکتے ہیں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی اور الہ آباد نہیں کر سکتے۔ انسان ان دو مسائل سے قناعت کے ذریعے رستگاری حاصل کر سکتا ہے۔لیکن وہ اپنے اس مسئلے کے حل میں اپنی موت دیکھتا ہے۔ وہ تو اپنے مقابلے میں کسی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو برداشت نہیں کرتا کہ اس پر وحی کیسے نازل ہو گئی؟ہر انسان کا قلب ان چار بیماریوں کا مریض ہوتا ہے۔وہ اپنے اندر چھوٹے سے چھوٹا فرعون قارون ہامان آزر رکھتاہے۔
وہ ان کی پرورش کرتا ہے انسان انہیں جوان اور توانا کرنے کی وجہ سے کبھی بھی معاشی و اخلاقی مسائل سے باہر نہیں نکل سکتا۔اور جب تک وہ اللہ کے پروگرام پر ایمان نہیں لائے گا ان مسائل سے باہر نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔خاص طور پر آج کے دور کے نوجوان کا یا انسان کا مسئلہ معاشی و اخلاقی نہیں ہے۔ مسئلہ پروگرام کا ہے۔
ایک وہ پروگرام ہے جو اس کے لئے بنا دیا گیا ہے جس میں فرعون قارون ہامان آزر کی کوئی گنجائش نہیں ہے انسان قوانین خداوندی کی اطاعت کرے گا انداد یعنی نئے نئے الہ تخلیق نہیں کرے گا یہ ہے وہ پروگرام جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بنا دیا ہے۔انسان اس کے بالکل برعکس اور اس کی مخالف سمت میں چلتا ہے۔جس پروگرام میں انہیں نقائص کہا گیا ہے انسان اپنے پروگرام میں انہی کو صفات بنا کر اختیار کرنا چاہتاہے۔لہذا معاشی و اخلاقی مسئلہ انسان کا خود کا اپنا ذاتی طور پر اختیار کردہ مسئلہ ہے۔
وہ خود اس مسئلے سے باہر نکلنا نہیں چاہتا جس دن اس نے یہ طے کر لیا کہ میں ان مسائل سے باہر نکلوں گا اس دن اس کے اپنے ذاتی فرعون قارون ہامان آذر اور أَندَاد ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے اور وہ کائنات کے خالق کا اصلی پیغام سمجھ جاتے گا اور یہی اس کے تمام مسائل کے حل کا نقطہ آغا ز ہو گا .