ملحدین کا اعتراض کہ خدا نے قران میں ہماری زبان میں خطاب کیوں نہیں کیا
جواب:
مفتی سید فصیح اللہ شاہ
اگر ہم زمین پر حیات کی توجیہ میں نظریہ ارتقاء کو سامنے رکھیں
تو ہمیں جانداروں میں جسمانی ارتقاء بھی نظر آتا ہے
انسان اور جانداروں کی صلاحیتوں کا ارتقاء بھی نظر آتا ہے
اسی طرح انسانی شعور کا ارتقاء بھی نظر آتا ہے
پھر انسانوں میں تہذیبوں کا ارتقاء بھی نظر آتا ہے
ایسے ہی مختلف ادوار میں زبانوں کا ارتقاء بھی نظر آتا ہے
جب تک انسان تہذیب و تمدن اور باہمی افہام و تفہیم کے لیے زبان و بیان کے مرحلے میں داخل نہیں ہوا ہمیں کوئی مذہب نظر نہیں آتا
جب انسانی شعور اور تہذیب اس قابل ہوئی کہ آسمانی تعلیمات کا فہم حاصل کر سکے مذہب کی ابتداء ہوتی ہے۔
جب انسانی شعور اس قابل ہوا کہ وہ اپنی زبان میں آسمانی تعلیمات کو بخوبی سمجھ سکے اللہ رب العزت نے جس قوم میں بھی رسول بھیجا اس قوم کے ہم زبان کو ہی رسول بنا کر بھیجا
پھر جب انسانی شعور نے ارتقاء کیا اور وہ اس قابل ہو سکا کہ کوئی بھی زبان مذہبی تعلیمات اور آسمانی احکامات کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی تو اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کے لیے آخری پیغام عربی زبان میں بھیجا۔
1400 سال سے انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہدایت کے حصول میں انسانوں کے لیے عربی زبان رکاوٹ نہیں بنی
ہمیں ہر مشہور و غیر مشہور، شہری، دیہاتی صحرائی جنگلی زبان بولنے والوں میں عربی کلام پر ایمان لانے والے اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے والے ملتے ہیں
مختلف زبانیں اب بھی ارتقاء کر رہی ہیں اور مزید زبانیں جنم لیتی رہیں گی لیکن آج تک کسی کو اس بات کا عذر نہیں ہوا کہ اللہ کا کلام عربی میں کیوں ہے اور میرے لیے اللہ کی تعلیمات کو سمجھنے میں عربی زبان رکاوٹ ہے، بلکہ جو بھی اللہ کے کلام کو اپنی زبان میں یا براہ راست عربی میں پڑھتا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہدایت پاتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی شعور اب اس ارتقائی مرحلے تک پہنچ چکا ہے کہ اس کے لیے کوئی زبان ہدایت حاصل کرنے میں رکاوٹ نہیں ہے۔
اس بات کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آج انسان کسی بھی زبان میں نیا اور پرانا فلسفہ، سائنسی تھیوریز اور مختلف تہذیبوں کے افکار کو بآسانی سمجھ لیتا ہے بلکہ اب تو روبوٹ اور موبائل تک مختلف زبانوں میں لکھتے اور بولتے نظر آتے ہیں
یہ عذر انتہائی نا معقول ہے کہ خدا نے میری زبان میں کیوں خطاب نہیں کیا صرف عربی میں کیوں ہدایت بھیجی