مائیکل ہارٹ نے حضرت محمدؐ کو عظیم کیوں کہا ؟

مائیکل ہارٹ نے حضرت محمدؐ کو عظیم کیوں کہا ؟

مائیکل ہارٹ نے حضرت محمدؐ کو عظیم کیوں کہا ؟

مائیکل ہارٹ نے حضرت محمدؐ کو عظیم کیوں کہا ؟

مائیکل ہارٹ ایک مغربی مصنف تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام سو عظیم آدمی تھا اس میں انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے 100 عظیم آدمیوں میں پہلا نمبر دیا یہ مضمون اسی کتاب سے ” اقتباس ” کیا گیا ہے۔

ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزانہ طور پر اپنے مسائی کا اغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے

اج سے 1300 برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں اس کتاب میں شامل متعدد افراد کی یہ خوش قسمتی رہی کہ وہ دنیا کی تہذیبی مراکز میں پیدا ہوئے اور وہیں ایسے لوگوں میں پلے بڑے جو عموما اعلی تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی حیثیت کی اقوام کے تھے۔ اس کے برعکس ان کی پیدائش جنوبی عرب میں مکہ شہر میں 570 عیسوی میں ہوئی یہ تب تجارت فنون اور علم کا مراکز سے بہت دور دنیا کا دقیانوسی گوشہ تھا وہ چھ برس کے تھے جب ان کی والدہ انتقال ہوا ان کی پرورش عام وضع پر ہوئی

اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان پڑھ تھے۔25 برس کی عمر میں جب ان کی شادی ایک اہل ثروت عورت سے ہوئی تو ان کی مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی تھا ہم 40 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لوگوں میں ان کا ایک غیر معمولی انسان ہونے کا تاثر قائم ہو چکا تھا تب زیادہ تر عرب اصنام پرست تھے وہ متعدد دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے مکہ میں البتہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مختصر آبادیاں بھی موجود تھیں

انہی کے توسط سے آپ واحد خدائے متعلق کا تصور سے شناسا ہوئے جب ان کی عمر 40 برس تھی انہیں احساس ہوا کہ خدائے واحد کی ذات مبارک ان سے اپنے فرشتے جبرائیل کی وساطت سے ہم کلام ہے اور یہ کہ انہیں سچے عقیدے کی تبلیغ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

تین برس تک اپنے قریبی عزیز و اقرباء میں ہی اپنے نظریات کے پچار کرتے رہے قریب 613 عیسوی میں انہوں نے کھلے عام تبلیغ شروع کی آہستہ آہستہ انہیں ہم خیالوں کی معیت حاصل ہوئی تو مکہ کے با اختیار لوگوں نے ان کی ذات میں اپنے لیے خطرہ محسوس کیا 622 عیسوی میں وہ اپنی حفاظت جان کی غرض سے مدینہ چلے گئے وہاں انہیں ایک بڑے سیاستدان کی حیثیت حاصل ہوئی اس واقعہ کو ہجرت کہا جاتا ہے یا نبی کی زندگی میں ایک واضح موڑ تھا

مکہ میں تو انہیں چند رفقہ کی جمعیت حاصل تھی مدینہ میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوگی جلدی ان کی شخصیت کے اثرات واضح ہوئے اور وہ ایک مکمل فرمانروا بن گئے اگلے چند برسوں میں ان کے پیروکاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مدینہ اور مکہ کے بیچ چند جنگیں لڑی گئیں جن کے اختتام 630 عیسوی میں اپ کی فتح مندی اور مکہ میں بطور فاتح واپسی پر ہوا ان کی زندگی کے اگلے ڈھائی برسوں میں عرب قبائل تیزی سے اس نئے مذہب کے دائرے میں داخل ہوئے 632 میں آپ کا انتقال ہوا تو آپ جنوبی جزیرہ ہائے عرب کے موثر ترین حکمران بن چکے تھے

عرب کے بدو جنگجوؤں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن وہ تعداد میں کم تھے شمالی زرعی علاقوں میں آباد وسیع بادشاہتوں کی افواج کے ساتھ ان کی کوئی برابری نہیں تھی تاہم آپ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ انہیں یکجا کیا یہ واحد خدا پر ایمان لے ائے ان مختصر عرب فوجیوں نے انسانی تاریخ میں فتوحات کے ایک حیران کن سلسلہ قائم کیا جزیرہ ہے عرب کے شمال میں سسانیوں کی نئی ایرانی سلطنت قائم تھی شمال مغرب میں بازنطینی یا مشرقی سلطنت رومہ تھی جس کا محور کانسٹنٹ ٹینٹی لوپل تھا

بالحاظ تعداد عرب فوج کا اپنے حریفوں سے کوئی جوڑ نہیں تھا تاہم میدان جنگ میں معاملہ مختلف تھا ان پرجوش عربوں نے بڑی تیزی سے تمام میسوپوٹیمیہ شام اور فلسطین فتح کیا 642 عیسوی میں مصر کو بازنطینی تسلط سے چھینا جبکہ 637 میں جنگ قدسیہ اور 642 میں نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوجوں کو تخت و تاراج کیا

تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نشین اور قریبی صحابہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی زیر قیادت ہونے والی ان عظیم فتوحات پر ہی مسلمانوں نے اکتفا نہ کیا 711 تک عرب فوجیں شمال افریقہ کے پار بحرہ عقیہ نوس تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکی تھی

پھر وہ شمال کی طرف مڑے اور ابنائے جب رلٹر کو عبور کر کے سپین میں ویسی گوتھک سلطنت پر قبضہ کیا ایک دور میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسلمان تمام مسیحی یورپ پر قابض ہو جائیں گے تام 732 میں طور کے مشہور جنگ میں جبکہ مسلمانوں فوجیں فرانس میں داخل ہو چکی تھی فرانک قوم کی فوجوں نے انہیں بالاخر شکست فاش دی

جنگ و وجدل کی اس صدی میں ان بدوی قبائل نے نبی کے الفاظ حرارت لے کر ہندوستان کی سردوں سے بہرہ قیس نوس تک ایک عظیم سلطنت استوار کر لی اتنی بڑی سلطنت کی اس سے پہلے تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی جہاں ان افواج نے فتوحات حاصل کی وہاں بڑے پیمانے پر لوگ اس نے عقیدے کی جانب مائل ہوئے۔

لیکن یہ تمام فتوحات پائدار ثابت نہیں ہوئیں ایرانی اگرچہ اسلام سے وفادار رہے لیکن انہوں نے عربوں سے آزادی حاصل کر لی سپین میں ساتھ صدیاں خانہ جنگی جاری رہی اور بالاخر تمام جزیرہ سپین پر پھر سے مسیح غلبہ ہو گیا قدیم تہذیب کہ یہ دو گہوارے میسوپوٹیمیا اور مصر عربوں کا تسلط میں ہی رہے یہی پائیداری شمالی افریقہ میں بھی قائم رہی اگلی صدیوں میں یہ نیا مذہب مسلم فتوحات کی حقیقت سرحدوں سے بھی پرے پھیل گیا

آج افریقی اور وسطی ایشیا میں اس مذاہب کے کروڑوں ماننے والے موجود ہیں یہی حال پاکستان شمالی ہندوستان اور انڈونیشیا میں بھی ہے انڈونیشیا میں تو اس وقت مذہب نے ایک متحد کر دینے والے عنصر کا کردار ادا کیا برصغیر پاک و ہند میں ہندو مسلم تنازعہ ایک اجتماعی اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی تاریخ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اثرات کا تجزیہ کر سکتے ہیں تمام مذہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے یہی وجہ کے قریب سبھی عظیم مذاہب کے بانیان اس کتاب میں شامل ہیں اس وقت عیسائی مسلمانوں سے بالحاظ تعداد دگنے ہیں اس لیے بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسی علیہ السلام مسیح سے بلند مقام دیا گیا ہے

۔اس فیصلے کی دو بنیادی وجوہات ہیں اول مسیحیت کے فروغ میں یسوع کے کردار کی نسبت اسلام کی ترویج میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار کہیں زیادہ بھرپور اور اہم رہا ہر چند کے عیسائیت کی بنیادی اخلاقی اعتقادات کی تشکیل میں یسوع کی شخصیت بنیادی رہی سینٹ پال نے ہی صحیح معنوں میں عیسائیت کی ترویج میں حقیقی پیشرفت کی اس نے عیسائی پیروکاروں میں اضافہ بھی کی اور وہ عہد نامہ جدید کے ایک بڑے حصے کا مصنف بھی ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اسلام کی الہیات کی تشکیل میں فعال تھے بلکہ اس کی بنیادی اخلاقی ضوابط بھی بیان کیے علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کے فروغ کے لیے بھی مساعی کیں اور اس کی مذہبی عبادات کی بھی توضیح کی

عیسی علیہ الصلوۃ والسلام مسیح بر عکس حضرت محمد نہ صرف ایک کامیاب دنیادار تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما بھی تھے فی الحقیقت وہی عرب فتوحات کے پس پشت موجود اصل طاقت تھے اس اعتبار سے وہ تمام انسانیت میں سب سے زیادہ متاثر کن سیاسی قائد ثابت ہوتے ہیں اگر ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی خاص سیاسی قائد نہ بھی ہوتا وہ وقوع وزیر ہو کر ہی رہتے مثال کے طور پر اگر سائمن بولیور کبھی پیدا نہ ہوتا پھر بھی شمالی امریکہ کالونیاں سپین سے آزادی حاصل کر ہی لیتی لیکن عرب فتوحات کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایسی کوئی مثال موجود نہیں اس امر پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ پیغمبر کے بغیر یہ فتوحات ممکن نہیں تھی تاریخ انسانی میں ان سے مماثل ایک مثال تیرویں صدی عیسوی میں ہونے والے منگولوں کی فتوحات ہیں جو بنیادی طور پر چنگیز خان کے زیر اثر ہوئی یہ فتوحات عربوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہونے کے باوجود ہرگز پائیدار نہیں تھی آج منگولوں کے قبضے میں صرف وہی علاقے باقی رہ گئے ہیں جو چنگیز خان کے دور میں فتح ہوئے تھے یا ان کے تسلط میں تھے۔

عراق سے مراکش تک عرب اقوام کی ایک زنجیر پھیلی ہوئی ہے یہ صرف اپنے مشترکہ عقیدے اسلام ہی کے سبب باہم متحد نہیں ہے بلکہ ان کی زبان تاریخ اور تمدن بھی مشترک ہے قران نے مسلم تہزیب مرکزیت پیدا کی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسے عربی میں لکھا گیا شاید اسی باعث عربی زبان باہمی ناقابل فہم مباحث الجھ کر منتشر نہیں ہوئی گو درمیان کی تیرہویں صدی میں ایسا امکان پیدا ہوا چلا تھا بلاشبہ ان عرب ریاستوں کے بیچ اختلافات اور تقسیم موجود ہے یہ بات قابل فہم بھی ہے لیکن یہ ہمیں اتحاد کے ان اہم عناصر سے منہ موڑنے پر مائل نہیں کر سکتا

جو ہمیشہ سے موجود رہے مثال کے طور پر ایران اور انڈونیشیا دونوں تیل پیدا کرنے والے اور مسلمان ممالک ہیں لیکن 1973 اور 74 کے موسم سرما میں ہونے والے تیل کی تجارت کے بندش کے فیصلے میں شامل نہیں تھے یہ محض اتفاق نہیں ہے تمام عرب ریاستی اور صرف عرب ریاستیں ہی اس فیصلے میں شریک تھی انسانی تاریخ پر اثرات موجود ہیں یہ دینی اور دنیاوی اثرات کا اثر بے نظیر اشتراک ہے جو میرے خیال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانی تعلیم میں سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت کے درجے دینے کا جواز بنتا ہے۔

 

میں نے پورا قرآن پڑھا ہے یہ آئینے کی طرح شفاف

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles