فقہ کیا ہے؟

فقہ کیا ہے؟

فقہ کیا ہے؟

ابو حیان سعید

غیر معمولی ذہانت اور اپنے دور کے حالات کے سماجی اور سائنسی احساس کا جامع علم ایک فقیہ کے لیے ضروری ہے۔

 

سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 44

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ ؕ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ۟

 

ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔ وه بڑا بردبار اور بخشنے واﻻ ہے.

 

میری سمجھ میں عربی لفظ "فقہ” تفہیم کا ایک سمندر ہے۔ "فقہ” کی اصطلاح کا مطلب ہے "سمجھنا،” "سمجھا نا” … وغیرہ۔ یہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیس مرتبہ چھ مختلف تغیرات میں آتا ہے۔

فقہ کے لفظی معنی گہری فہم و فراست کے ہیں- قرآن پاک میں ہے: قالوا یا شعیب لانفقہ کثیراً مماتقول(ھود: ۹۱) ’’قوم شعیب نے کہا اے شعیب! آپ کی بیشتر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں-‘‘

تفقہ، فقہ کی تحصیل کو کہتے ہیں اور تفقہ سے مراد دین کی گہری بصیرت کا حصول ہے .

 

سورہ التوبہ  آیت نمبر 122

وَمَا كَانَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا۟ كَآفَّةًۭ ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍۢ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌۭ لِّيَتَفَقَّهُوا۟ فِى ٱلدِّينِ وَلِيُنذِرُوا۟ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ .

اور اہل ایمان کے لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ سب کے سب نکل آئیں تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ نکلتا ان کی ہر جماعت میں سے ایک گروہ تاکہ وہ دین کا فہم حاصل کرتے اور وہ اپنے لوگوں کو خبردار کرتے جب ان کی طرف واپس لوٹتے تاکہ وہ بھی نافرمانی سے بچتے

بیان القرآن … ڈاکٹر اسرار احمد

 

 

فقہ کی اصطلاح کا مطلب عام طور پر "سمجھنا” یا "مطالعہ” ہے، لہذا سورہ التوبہ کی آیت نمبر 122  دین کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کی بات کر رہی ہے، یعنی اسلام، جس میں اسلامی قانون شامل ہے لیکن اس تک محدود نہیں ہے۔ فقہ جیسا کہ سورہ التوبہ کی آیت نمبر 122 میں استعمال کیا گیا ہے اس کا مطلب ہے قرآن کے پیش کردہ عقیدے کا مطالعہ کرنا، اس میں موجود تاریخی واقعات، اس میں مختلف فطری واقعات، قانون، سیرت نبوی، اللہ تعالیٰ نے ترقی کی راہنمائی کیسے کی۔ مسلمانوں کی پہلی نسل کے نئے دین کو قائم کرنے اور اس کی ابدیت کو یقینی بنانے کے لیے، اسلامی تعلیمات کا زمان و مکان سے کیا تعلق ہے، اسلام کو مختلف لوگوں اور ثقافتوں کے سامنے کیسے پیش کیا جائے۔

 

فقہ کے مسلم اسکالرز اسلامی قانون میں "اگر مگر اور لیکن” کی بہت زیادہ وضاحت کے ذمہ دار رہے ہیں، اور یہ بے معنی  "اگر مگر اور لیکن”  تفصیل اسلامی قانون کے مقصد اور دین میں اس کے کردار کے بارے میں غلط فہمی کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلامی قانون بہت اہم ہے، لیکن اسلام اپنے قانونی نظام سے بہت بڑا ہے۔ اسی طرح اسلام کی فقہ  کے طالب علم کو دین کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ صرف اس کے قانونی نظام کا۔

 

ہم نے اسلام کے جوہر سے رابطہ کھو دیا ہے اور صدیوں سے سطحی مسائل میں مصروف ہیں۔ ہم نے دل کو جسم کے لیے، دماغ کو فرقہ پرست اساتذہ کے لیے اور سوچ کو بے جان، بے بنیاد، بے معنی مضحکہ خیز قدیم ہدایات کے لیے اور ہمیشہ رہنے وا لے دین کو ہزار سال سے زیادہ قدیم آباؤ اجداد کے فہم  پر  چھوڑ دیا ہے۔

 

صدیوں سےاسلامی فقہ کی کتابوں میں بیان کیے گئے 99 فیصد سوالات اور مسائل مفروضے ہیں اور ان کے جوابات صرف ذہنی عیاشی ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زہنی عیاشی کی یہ مشق اب بہت سست ہو رہی ہے۔

 

سورۃ الانعام آیت نمبر 65

 

قُلْ هُوَ ٱلْقَادِرُ عَلَىٰٓ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًۭا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًۭا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ ٱنظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ ٱلْـَٔايَـٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ .

کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں

بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)

 

سورۃ الانعام آیت نمبر 98

 

وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٰحِدَةٍۢ فَمُسْتَقَرٌّۭ وَمُسْتَوْدَعٌۭ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْـَٔايَـٰتِ لِقَوْمٍۢ يَفْقَهُونَ .

اور وہی ہے جس نے تمہیں اٹھایا ایک جان سے پھر تمہارے لیے ایک تو مستقل ٹھکانہ ہے اور ایک کچھ دیر (امانتاً) رکھے جانے کی جگہ ہم نے تو اپنی آیات کو واضح کردیا ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ سے کام لیں

بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)

 

آئیے تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ فقہ کی بنیاد کیا ہے؟

تاریخ میں جھانکیں تو حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فیصلے کیسے ہوئے ….

 

سنن ترمذی #1327

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَقْضِي ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَجْتَهِدُ رَأْيِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو ( قاضی بنا کر ) یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا: ”تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“، انہوں نے کہا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ”اگر ( اس کا حکم ) اللہ کی کتاب ( قرآن ) میں موجود نہ ہو تو؟“ معاذ نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ”اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی ( اس کا حکم ) موجود نہ ہو تو؟“، معاذ نے کہا: ( تب ) میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو  توفیق بخشی“۔

 

یہ حدیث معاذ رضی اللہ عنہ تمام فقہاء کی بنیاد ہے۔

 

تبصرہ: یہ روایت "حدیث معاذ رضی اللہ عنہ” کے نام سے بہت مشہور ہے۔ حنفیوں کو یہ روایت بہت پسند ہے لیکن اہل حدیث سلفی نے اس روایت کو "ضعیف” کہہ کر رد کیا ہے، لیکن کیوں، اس روایت میں لفظ "أَجْتَهِدُ رَأْيِي” استعمال ہوا ہے۔ لفظ "أَجْتَهِدُ رَأْيِي”   ( رائے سے اجتہاد ) اہلحدیث سلفیوں کے نزدیک قابل نفرت ہے، اسی لیے ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔ لیکن ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی کے الفاظ حرف آخیر نہیں ہیں۔

 

سنن ابوداؤد # 3583

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار .

 

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں ، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔

 

سنن ابوداؤد   #3585

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏بِهَذَا الْحَدِيث، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ وَأَشْيَاءَ قَدْ دَرَسَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْيِي فِيمَا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهِ.

 

اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ   وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے

امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (متوفی 40 ہجری) کے پاس حدیث کا ایک نسخہ بھی تھا جس کا نام "صحیفہ علی” تھا۔

صحیح بخاری حدیث نمبر 111

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَلِيِّ : هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ ؟ قَالَ : لَا ، إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، قَالَ : قُلْتُ ، فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ .

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ   میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ( اور بھی ) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان  ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

 

قرآن کریم کے ممتاز سکالر ڈاکٹر محی الدین غازی، ڈین فیکلٹی آف قرآن، اسلامک یونیورسٹی، کیرالہ، انڈیا نے کہا کہ ..

” اُمت کوعقل سے قریب کرنے اور مانوس کرنے کا قرآن سے زیادہ موثر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ عقل سے قربت قرآن سے قربت کا ایک پیمانہ ہے۔ امت قرآن سے جتنا زیادہ قریب ہوگی وہ عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ قریب ہوگی، اور قرآن سے جتنی زیادہ دور ہوگی ،عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ دور ہوگی.

 

جامعہ ازہر (مصر) میں  آج  سے  تقریباً  40 سال پہلے مختلف  فقہی  قوانین کی  تدوین  نو کا  بیڑا  اٹھایا  گیا  تھا  اور وہاں کے ماہرین  کی  ایک  بڑی  جماعت  نے مختلف مسالک  کی بنیاد  پر قوانین  کے الگ الگ  مجموعے مرتب  کیے  تھے۔ علمی اعتبار  سے  یہ ایک  اچھی  کاوش  تھی، لیکن  اس سے دنیائے اسلام  میں زیادہ  استفادہ   نہ  کیا جا سکا  اور یہ کام محض کتب خانوں کی  زینت  بننے  سے آگے نہ بڑھ  سکا۔  شاید   اس کی ایک اہم  وجہ یہ  بھی  تھی  کہ اب  مسلکوں کی  پابندی  کا  دور آہستہ آہستہ ختم  ہو رہا  ہے۔ اب  جدید  مسلم  ممالک  کا  پبلک  لاء  مسلکوں کے  محدود  دائرہ کار کی پابندی  کے ساتھ  نہیں  بنایا  جا  سکتا۔

 

فقہ   میں  بھی  نئے  نئے رجحانات  پیدا  ہوئے  ہیں تحقیق  اور غور و فکر کے  لیے بہت  سے  نئے موضوعات  سامنے  آئے  ہیں۔ ایسا  معلوم  ہوتا  ہے کہ آئندہ  پچاس سال اصول فقہ کے لیے ایک  دور جدید کے منار ثابت ہوں گے اور جو رجحانات  گزشتہ  پچاس  ساٹھ  سال میں ابھر کر سامنے  آئے ہیں وہ  پایہ  تکمیل  تک  پہنچیں  گے اور ان کے بہتر نتائج و ثمرات  سامنے  آجائیں  گے۔

(اگر فرقہ  وارانہ  انتہا پسندی  پر قابو  پالیا  جائے )

حوالہ جات اور مطالعا ت :

الفقه الاسلامي في ثوبه الجديد .. زرقاء، مصطفى احمد

 

 Concept of Sunnah by :Dr.Muhammad Yusaf

 

عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2  .. ڈاکٹر خالد مسعود

 

اصول فقہ اسلامی از ڈاکٹر طہٰ جابر حلوانی

 

Principles of Muhammadan Jurisprudence   by: Justice Abdul Rahim

 

ہماری دستوری تاریخ از اسد سلیم شیخ، پبلشر فکشن ہاؤس

 

علم اصول فقہ ایک تعارف . تین جلدیں… ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں (چئیرمین شعبہ علوم اسلامیہ یو ای ٹی ،لاہور )

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles