شیطان کی قید وقتی اور عارضی ہے


شیطان کی قید وقتی اور عارضی ہے

شیطان کی قید وقتی اور عارضی ہے

اگر شیطان کو قیامت تک مہلت ملاہے تو رمضان میں کیو قید کیا جاتا ہے یہ وعدہ خلافی نہیں ، اسکا جواب چاہیں۔

جواب :

شیطان کی قید وقتی اور عارضی ہے مہلت قیامت تک باقی ہے اگر اسکی مہلت بالکل ختم کردی جاتی تو یہ وعدہ خلافی ہوتی ۔ جبکہ بعض علماء نے قید کے دوسرے معنی بھی مراد لیے ہیں جو آگے ذکر کررہا ہوں : جس پر پھر کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1079 ) ۔

شیطانوں کے جکڑے جانے کے معنی میں علماء کرام نے کئی ایک معنی کیے ہیں :

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے الحلیمی سے نقل کیا ہے کہ :

یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ جس طرح وہ عام دنوں میں مسلمانوں کوگمراہ کرسکتے ہیں رمضان میں نہیں کرسکتے کیونکہ وہ روزہ میں مشغول ہوتے ہیں جوشھوات کوختم کردیتا ہے اورقرآن مجید کی تلاوت اورذکر واذکارمیں مشغول رہنے کی بنا پر گمراہ ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔

اورالحلیمی کے علاوہ دوسروں کا کہنا ہے کہ : اس سے بعض شیطان مراد ہیں جوکہ زيادہ سرکش قسم کے ہوں انہیں جکڑا جاتا ہے ۔۔۔۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( صفدت ) یعنی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔

اورقاضي عیاض رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یہ احتمال بھی ہےکہ اسے ظاہر اورحقیقت پر محمول کیا جائے ، اوریہ سب کچھ فرشتوں کے رمضان المبارک کے شروع ہونے کی علامت اوراس کی حرمت کی تعظيم اورشیطانوں کا مؤمنوں کواذیت دینے سے منع کرنا ہے ۔

یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں اجروثواب کی کثرت کا اشارہ ہو اورشیطانوں کا لوگوں کوگمراہ کرنا کم ہونے کی بنا پر وہ جکڑے ہوؤں کی طرح بن جائيں ۔

اس دوسرے احتمال کی تائيد مندرجہ ذیل مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے :

یونس بن شھاب بیان کرتے ہیں کہ : رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، یہ بھی احتمال ہے کہ ۔۔۔۔۔ کہ شیطان لوگوں کوگمراہ کرنے اوران کے لیے شھوات کومزین کرنے سے عاجز ہونے کی بنا پر انہیں جکڑے ہوئے کہا گيا ہے۔

زين بن المنیر کہتے ہيں کہ پہلا معنی زيادہ اولی ہے اورالفاظ کو ظاہری معنی میں نہ لینے کی کوئي وجہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی ضرورت ہے ۔

دیکھیں فتح الباری ( 4 / 114 ) ۔

شیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی پوچھا گيا :

( اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ) ۔

اس فرمان کے باوجود ہم دیکھتے ہيں کہ ماہ رمضان میں دن کے وقت بھی بہت سے لوگ جنوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ، تولوگوں کے اس دوروں کے باوجود شیطان کا جکڑا جانا کس طرح ہوگا ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

بعض روایات میں ہیں کہ : ( اس میں سرکش قسم کے شیطان جکڑے دیے جاتے ہیں ) ( یا انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں ) امام نسائی رحمہ اللہ تعالی نے اسے روایت کیا ہے ۔

نیز قرآن مجید میں شیطان کی مہلت سے متعلق

"الی یوم الوقت المعلوم ” کا جملہ مذکور ہے گرچہ اکثر مفسرین کے یہاں اسکا مطلب پہلے صور پھونکے جانے تک کا وقت ہے(آسان ترجمہ قرآن /تفسیر مظہری ) لیکن اسمیں ایک عام مفہوم بھی مترشح ہوتا ہے کہ جو وقت اللہ کے علم میں ہے اگر وہ( عارضی وقت یا قید )اللہ کے علم میں رمضان کی ہو تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں ۔

جواب : عبداللہ عمر

 

رمضان المبارک کے متعلق سوالات و جوابات

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles