سادے ذہن , انسان میں الحاد کی ابتداء اور ہماری سنگین غلطیاں
سادے ذہن , انسان میں الحاد کی ابتداء اور ہماری سنگین غلطیاں
ایک زمانہ تھا جب تربیت کی ذمیداری صرف گھر اور والدین پہ ہوا کرتی تھی. انہی کی تربیت سے پچھلے ادوار میں نسلیں اور قومیں تیار ہوئیں. لیکن آج دورِ جدید میں انسانی تربیت کہلائے جانے والے اس جزوِ زندگی کا مفہوم کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے. آج گلوبلائزیشن کے دور میں ایک بچے کی تربیت صرف والدین انجام نہیں دے رہے ہوتے. بلکہ اس تربیت کے چار Mediums ہیں. اور ایک اچھی یا بری, خوشحال یا تباہ حال, بدحال نسل اور قوم کے مکمل ذمیداران یہ چار Mediums ہوا کرتے ہیں.
١- والدین/ گھر
٢- تعلیمی ادارے
۳- حکومتِ وقت
۴- میڈیا
ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تربیت کے یہ چار Mediums خود نوے فیصد غیر تربیت یافتہ ہیں.
داستان تو بہت طویل ہے لیکن یہاں تحریر کا موضوع "فتنہ الحاد” ہے جو بہت سی تباہ کن برائیوں کی جڑوں میں سے ایک بنیادی جڑ ہے جس کی آڑ لے کے انسان ہوس و حیوانیت , مکمل بے حسی اور خود غرضی , کمزور کے استحصال (Survival for most fit) اور ان جیسے مزید امور و افعال کی مکمل مادر پدر آزادی کا طلبگار بن جاتا ہے.
نوٹ: Survival for the most fit علم و موضوعِ ارتقاء میں شامل ایک Term ہے, لیکن یہ لاشعوری Psychological طور پہ انسان کو خودغرض اور اپنے سے کمزور کا استحصال کرنے والا بھی بناتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک اور مشہورِ زمانہ Term یا محاورہ ہے "Every thing is fear in love and war ". جبکہ اس کے مقابل الہیٰ شریعت دین / مذہب زندگی کے ہر عمل و فعل چاہے جنگ ہو یا محبت اس میں انسان کو جائز , حلال,حق اور پاک راستوں کے لیے پابند کرتا ہے.
ہمارا معاشرتی رویہ , والدین, دوست عزیز رشتے دار احباب, تعلیمی ادارے, حکومت, میڈیا یہ ایک عام سوچنے سمجھنے سوالات اٹھانے والے دماغ و ذہن کو ملحد بنانے کے لیے کافی ہیں , بلکہ بھرپور عملی کردار اس میں ادا کر رہے ہیں. بچے یا نوجوان لڑکے لڑکی کے ذہن میں اپنی شناخت و دین کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت و صلاحیت بالعموم کسی میں ہے نہیں نہ ترجیحات کی کسی فہرست میں دور دور تک شامل ہے.
اس پہ مزید یہ کہ جب سولات پیدا کرنے والے یہ بیدار لیکن کچے ذہن لاہور اچھرہ بازار اور حلوہ لباس جیسے واقعات اور عوامی رویہ دیکھتے ہیں تو تصور کر بیٹھتے ہیں کہ اگر "مسلمان یا امت رسول ﷺ” اس بازار میں عورت کے سر پہ کھڑی اچھل کود کر رہی عربی سے مکمل نابلد جاہل مخلوق کو کہا جاتا ہے تو اس سے بہتر تو بظاہر "مہذب” نظر آ رہے ملحد بن جانا ہی ہے.
انتہائی بد قسمتی سے یہ افراد اس ہی لاہوری مخلوق کو دین محمد ﷺ / شریعتِ الہیٰ کا اصل چہرہ سمجھ بیٹھتے ہیں.
بحیثیت معاشرہ یہ صرف ہماری غلطیاں / mistakes نہیں ہیں. یہ ہمارے جرم / Crime/ blunders ہیں. ہمارا یہی طرزِ عمل اگلی نسلوں کو مزید تیزی سے ملحد بنا رہا ہے اور دشمن اس کا بھرپور فائیدہ نہیں تو اور کون اٹھائے گا. یاد رکھیے Invest صرف چند موٹی مچھلیوں پہ کیا جاتا ہے. اہل پاکستان اپنی بھرپور فراخ دلی اور دریا دلی سے ہر اپنا گناہ, خطا اور Blunder بھلا کے ہر بات مکمل یہودی و بیرونی سازش کے کھاتے میں ڈال دیا کرتے ہیں.
یہ تیار کی گئی موٹی مچھلیاں آج کے دور میں نہایت آسانی سے Fake social media ids یا Online blogs , videos اور Internet پہ موجود Unauthentic references , links / غیر مستند شدہ Data کی بھرمار کے ذریعے سوال اٹھانے والے ان کچے ذہنوں میں زہر گھولنے کا کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے لیا کرتی ہیں.
ایک بچہ جب اپنی شناخت اور دین اور دین کے نام پہ انجام دی جا رہی رسومات و اعمال کے متعلق آکر Logical سوالات اپنی ماں یا باپ سے پوچھتا ہے تو اسے بہلا پھسلا کے یا گول مول بات کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے کیونکہ خود ان ماں باپ میں جواب دینے کی اہلیت قابلیت اور صلاحیت ہوتی نہیں , نام نہاد پیدائیشی مسلمان والدین خود اپنی ذات میں نالائق ہوتے ہیں. چلیے خود نالائق تھے تو اس کا اعتراف کر لیتے , ا
پنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کے اپنے بچے کو کسی ایسی شخصیت کے پاس لے جاتے جو تسلی بخش اس کے سوالات کے جوابات اس کی عمر, سمجھ , عقل و فکر کو مدِ نظر رکھ کے دینے کے قابل ہوتی اہلیت رکھتی. جو مکمل صبر و تدبر کے ساتھ جب تک اس کی Counselling جاری رکھتی جب تک بچہ یا سائل مکمل مطمئن نہ ہو جاتا . نہیں ایسا بھی نہیں کیا جاتا! مزید کوتاہی, مزید Blunder! غلطی در غلطی اسی کوکہتے ہیں.
یہیں سے ایک عام بچہ , نوجوان لاشعوری و فکری طور پہ الحاد اور دین سے نفرت کی طرف مائل ہوجاتا ہے. اس کےذہن میں اسلامی معاشرے اور طرزِ زندگی کی ایسی تصویر ثبت ہوکے رہ جاتی ہے جو درحقیقت دین اور اسلامی طرزِ زندگی کی اصل تصویر کے بلکل برعکس ہے. اسی اس کی الحادی فکر کو Polish یا کہ لیجیے اس کی مزید الحادی فکری تربیت اویس اقبال , غالب کمال,حارث سلطان جیسے Online لوگ کیا کرتے ہیں کیونکہ والدین , حکومت, میڈیا اور تعلیمی اداروں کے پاس اس فضول سے کام کے لیے وقت اور Schedule موجود نہیں ہے.
دنیا میں عمومً جن معاشروں کو آج Idealize کیا جاتا ہے ان کا ظاہر نہایت خوشنماء ہے لیکن باطن اتنا ہی گندہ ہے, اسی طرح اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ وہ ہے جس کا ظاہر بھی گندہ اور باطن بھی گندہ ہے. لیکن اسلام / نظام و شریعتِ الہیٰ کا اصل مقصود وہ معاشرہ ہے جس کے ظاہر اور باطن دونوں انتہائی عمدہ, خوشنماء اعلیٰ اور پاکیزہ ہوں. ( اس موضوع پہ الگ تحریر میری موجود ہے)
اگر ابتداء میں والدین ممکن حد تک کوشش کر کے اپنی اولاد کے دینی , انسانی, شناختی Bases اور Concepts مظبوط بنانے پہ توجہ دے لیا کریں, تعلیمی ادارے بہت سی نصابی اور غیر نصابی سرگمیوں کے ساتھ ان تربیتی سرگرمیوں کا بھی تھوڑا سا اہتمام کر لیں, حکومتِ وقت باقی تین Mediums کے اشتراک سے قوم اور بچوں کی فکری تربیت کے پروگرامز تشکیل دے لے تو الحاد اور دوسرے بہت سے فتنے اپنی موت آپ مر جائیں.
آخر میں دست بستہ ایک درخواست ان دوستوں سے جو مختلف فورمز پہ ان ملحدین سے علمی فکری بحث یا گفتگو کیا کرتے ہیں. سب سے پہلے اس امر کو ذہن میں رکھیے کہ یہ ذاتی یا انفرادی ایک دوسرے سے جیتنے یا اگلے کو لازمی قائل کر لینے یا نیچا دکھانے کی لڑائی نہیں ہے. یہ خالصتاً نظریات کا تصادم ہے. چاہے سامنے والا آپ سے کیسی ہی باتیں کیوں نہ کرے, چاہے اس کی باتیں کتنی ہی تکلیف دینے والی, سخت, طویل, بے معنیٰ, بے ربط ہی کیوں نہ ہوں, چاہے وہ لاکھ سمجھانے پہ کچھ بھی نہ سمجھے.
آپ کبھی صبر, برداشت, تحمل, اخلاق , کردار اور Grace کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں. ہمیشہ طنز, تحقیر, برے جملوں, انداز اور گالیوں سے بچیں. یہی راہِ اسلام, سنت رسول ﷺ اور جہاد بالنفس ہے. یہ کبھی نہ ہو کہ آپ دین و شریعت کا دفع کرتے کرتے خود دین اور شریعت سے ہٹ جائیں. ہمارا یہ طرزِ عمل اور دوغلا پن بھی الحاد کو فائیدہ دینے کے مترادف ہے.
اسلام علیکم- آپ پہ سلامتی ہو- Peace be upon U
تحریر : سید حسن علی