رشوت کا نشہ سماج کی تباہی

رشوت کا نشہ سماج کی تباہی

رشوت کا نشہ سماج کی تباہی

(ترتیب)

(ابوولید خاں سیالکوٹ )

پاکستان 1997 ایکٹ کی دفعہ 740کے مطابق پولیس کسی بھی گھر میں بغیر وارنٹ داخل نہیں ہوسکتی اور آگر بغیر وارنٹ داخل ہوتی ہے اور اہل مکان نے اہکاروں پر تشدد کیا تو اہل مکان پر کوئی جرم نہیں بنتا
کیونکہ یہ عمل انہونے اپنے دفاع میں کیا تھا ،

لیکن” پولیس چادر چاردواری کے تقدس کو آئے دن پامال کرتی نظر آتی ہے ، اس کی وجہ رشوت کا نشہ ہے ،
دنیا میں بے شمار نشے ہیں جو دھیرے دھیرے انسان کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں لیکن” رشوت کا واحد نشہ ہے جس کی پہلی دمڑی ہاتھ میں آتے ہی انسان کی ساری چمڑی کو اپنی گرفت میں گرفتار کرلیتی ہے ؟
پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں
پولیس اور فوج کے درمیان وجہ تنازع بھی رشوت ادا نہ کرنے کی صورت میں پولیس کے اختیارات کا ناجائز استعمال سے شروع ہوا ،

جس کو سوشل میڈیا ، عالمی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے بھی خوب وائرل کیا،
میرا بچپن کنٹونمنٹ میں فوجیوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے گزرا ہے میں نے بچپن سے فوج کا نظم و ضبط اور ڈسپلن بہت قریب سے دیکھا ہے ، میں نے ڈسپلن کے خلاف ورزی کرنے پر فوج کے ہاتھوں فوجی کو گرفتار ہوئے دیکھا ہے ،
جبکہ پولیس کے پاس کسی فوجی کو براہِ راست گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اگر فوجی اہلکار کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج ہو تو اس کی گرفتاری کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے

پولیس کی طرف سے گرفتاری کے لیے مطلوب اہلکار کی یونٹ کے انچارج بریگیڈیئر کو خط لکھا جاتا ہے جس میں ایف آئی آر کی کاپی منسلک کی جاتی ہے اور پولیس تفتیش کے دیگر حالات و واقعات بتائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک آرمی اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کے گھر میں گھس جائیں۔
پولیس کو ٹرینگ کے دوران تعزیراتِ پاکستان کا ایکٹ پڑھایا جاتا ہے تو اس میں فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق بات شامل ہوتی ہے۔

اگر بہاولنگر کے ایس ایچ او کے علم میں تھا کہ وہ جہاں چھاپہ مار رہا ہے اور جسے گرفتار کر رہا ہے، وہ آرمی کا حاضر سروس اہلکار ہے تو پھر اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا اہلکار کی گرفتاری کے بعد ہوا۔
بہاولنگر واقعے میں ایس ایچ او کی ناقص حکمتِ عملی نظر آتی ہے جس نے پہلے رشوت حاصل کرنے کے لیے چھاپہ مارا اور اہل خانہ نے اسے تنبہیہ کے بعد چھوڑا۔ لیکن وہ باز نہ آیا اور اس نے تھانے جاکر نئی ایف آئی آر درج کی اور پھر آرمی اہلکار کے گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔

حالانکہ آگر ایس ایچ او قانون کے مطابق عمل کرتا تو یہ نتیجہ نہیں نکلتا ،
فوجی ملازم پر سول لاء کے ساتھ ساتھ ملٹری لاء بھی نافذالعمل ہوتا ہے۔ اس لیے جب کوئی فوجی جرم کرتا ہے تو اس کے خلاف کیس ملٹری کورٹ میں چلتا ہے اور فوجی قانون کے تحت قانونی اور محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
ایسا نہیں کہ بہاولنگر واقعے کے بعد فوج اپنے اہلکار کو چھوڑ دے گی یا کوئی رعایت برتے گی بلکہ فوج کی تفتیش و تحقیقات کا پیمانہ سول پولیس سے کافی وسیع اور سخت ہوتا ہے، اس میں کوئی سفارش یا رشوت کام نہیں آتی جو لوگ اس کڑے عمل سے گزرے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔
آرمی میں سینئر اور جونئیر کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کے ساتھ کوئی ذاتی مسئلہ درپیش ہو تو اسے حل کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

، "اگر ماتحت ذہنی طور پر پریشان ہو یا اس کے گھر پولیس ناجائز چھاپے مار رہی ہو، اہلِ خانہ کو ہراساں کیا جا رہا ہو تو وہ کیسے اپنی ڈیوٹی بہتر طور پر سر انجامِ دے سکتا ہے۔”
پاکستان میں پولیس کی جانب سے یہ پہلا موقع نہیں جب پولیس اور آرمی کے اہلکاروں میں جھگڑا ہوا ہو۔ ؟
مئی 2021 میں کراچی کے علاقے ہاکس بے میں نیوی اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھگرا ہوا تھا جس میں مجموعی طور پر پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

جولائی 2021 میں کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں میں جھگڑا ہوا جس میں ہوائی فائرنگ بھی ہوئی تھی۔
اسی طرح ستمبر 2016 میں فوج کے دو افسران کا موٹر وے پولیس کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا جس کا فوج نے باقاعدہ نوٹس بھی لیا تھا۔

دراصل ٹرینگ کے دوران کچھ پولیس اہلکار رشوت یا سفارش کے زریعے ٹرینگ کے دوران نہ ٹرینگ کرتے ہیں اور نہ ہی قانون کی کلاس لینے ہیں بلکہ گھر بیٹھ کر ٹرینگ کرتے ہیں اور رشوت دیکر اپنی مرضی کے تھانوں میں سالوں تعینات رہتے ہیں جنہیں پولیس کی زبان میں کالی بھیڑیں کہا جاتا ہے ،

ان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں پولیس محکمہ سے وابستہ افراد کی جو شبیہ ہے، وہ اس قدر مسخ کردی گئی ہے کہ انہیں جذبات اور احساس سے عاری اور انسانی دردمندی سے خالی وجود سمجھاجاتا ہے۔ ان سے ادب یا آرٹ کی توقع عبث سمجھیں جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ یہ پولیس بھی اسی انسانی معاشرہ کے افراد ہیں۔ ان کے پاس بھی گداز دل ہے۔ ان کے شب وروز بھی انسانی دکھ درد سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ اذیتوں اور عذابوں میں گھرے ہونے کے باوجود صرف اپنے نہیں بلکہ معاشرے کے خوابوں کو بھی ژندہ رکھتے ہیں۔ جرائم، حادثات اور واردات پر ان کی نگاہ ضرور ہوتی ہے مگر اجتماعی واردات اور انسانی المیہ سے یہ بے خبر نہیں ہوتے۔

عام انسانی واردات کا ان کے ذہن پر بھی بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی اسی سماج کا ایک حصہ ہیں جہاں سے تخلیقی احساس کو تحرک ملتا ہے۔ انہیں بھی اسی انسانی معاشرہ سے موضوع اور مواد ملتا ہے۔ یہ سوچنا کہ ان کی آنکھیں بند ہیں، یہ غلط تصور ہوگا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سماج کی جتنی جہتوں اور نفسیات پر ان کی نظر رہتی ہے، شاید ہی دوسروں کی ہو۔ صحیح معنیٰ میں تجربات اور مشاہدات کی دولت انہیں ہی نصیب ہے۔ وہ مشاہدہ جو تخلیق کو تحیر اور تازگی عطا کرتا ہے، جو اظہار کو توانائی بخشتا ہے۔ حالات کی کشمکش اور تناؤ سے بھی ان کے تخلیقی احساس کو تحریک ملتی ہے۔ جتنے بھی داخلی اور خارجی محرکات تخلیق کے لیے ضروری ہیں، ان سب سے یہ معمور ہیں۔ بس پولیس کے محکمے کو چند کالی بھیڑوں نے رشوت کے عوض بدنام کیا ہے ، جس کا سدباب ہونا ضروری ہے
ورنہ بہاولنگر جیسے واقعات رونما ہوئے رہیں گے ؟؟

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles