خدا کا وجود
سوال: ۔
الحمداللہ میں ایک مسلمان ہوں اور میں اس قابل ہوں کہ یہ ثابت کر سکوں کہ خدا نے کائنات کو بنایا ہے مگر مجھ سے سوال کیا گیا ہے کہ اگر کائنات کو خدا نے بنایا ہے تو خدا خود کہاں سے آیا ہے ۔۔۔۔ ؟؟
جواب: ۔
خدا کہیں سے نہیں ایا خدا ہمیشہ سے تھا۔ہم ائے،ہم تخلیق ہوئے،ہمارا شعور تخلیق ہوا،اور ہمارے شعور نے اپنی شعوری حالت میں کئی ساری تخلیقات کو ہوتے ہوئے دیکھا۔جیسا کہ کوئی بلڈنگ بننا کوئی پل تعمیر ہونا یا کسی کا پیدا ہونا۔ایسی چیزیں ہم بچپن سے دیکھتے ہیں اور مرنے تک دیکھتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے اسباب ہم کبھی نہیں دیکھتے کہ کوئی چیز خود بخود وجود میں ائے۔لہذا ہم جو دیکھتے ہیں ہمارا شعور اسی کو قانون سمجھتا ہے جو کہ حقیقت میں مخلوقات کے لیے قانون ہے۔
جب ہم خدا کے حوالے سے یہ سوچتے ہیں کہ خدا کہاں سے ایا تو ہمارا شعور پھر وہی قوانین اطلاق کرتا ہے جو وہ بچپن سے لے کر مرنے تک دیکھتا ہے۔جس وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔
خدا ہے ہی جدا دنیا میں ایسا کوئی علم موجود نہیں جو مکمل طور پر خدا کو سمجھنے کا دعوی کر سکے ہاں البتہ فلسفہ سائنس اور باقی کچھ علوم کی مدد سے ہم خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں ان نشانیوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سے ایک یقینی صورتحال بنا سکتے ہیں کہ واقعہ ہی خدا موجود ہے۔لیکن فی الحال بات خدا کے انے کی ہو رہی ہے کہ وہ کہاں سے ایا۔
جب بھی ہم اس قانون کا اطلاق کریں گے کہ اگر ہمیں کسی نے بنایا تو خدا کو بھی کوئی بنانے والا ہوگا تو یہ ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگا جو لامحدود ہو جائے گا یعنی اگر خدا کو کسی نے بنایا تو اس کو بھی کوئی بنانے والا ہوگا اور اس کا بھی کوئی بنانے والا ہوگا ایسے ہی یہ سلسلہ لامحدود ہو جائے گا۔اور اس سلسلے کو علم الکلام یا منطق باطل ٹھہرایا جاتا ہے ۔اور اس کو باطل ٹھہرانے پر ملحدین بھی متفق ہیں۔
یہ صرف خدا کے حوالے سے باطل نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ اس کو چند لمحات کے لیے ہم انسان کی تخلیق پر لاگو کر کے دیکھتے ہیں میں اپنے ماں باپ سے پیدا ہوا میرے ماں باپ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے ایسے چلتے چلتے یہ سلسلہ ادم اور حوا تک چلا جائے گا تو تب ہم کون سا قانون اطلاق کریں کہ ادم اور حوا بھی اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے ؟ یقینا نہیں کر سکتے یہاں ا کر ہمیں اس سلسلے کو روکنا پڑے گا اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کوئی بنانے والا موجود ضرور ہے۔
انٹرنیٹ پر اپ جب ڈی این اے کے معاملے میں تحقیق کریں گے تو اپ کو سائنسی ادم اور سائنسی ہوا کو پڑھنا پڑے گا۔کیونکہ سائنس کی تحقیقات یہ ثابت کر چکی ہیں کہ تمام ڈی این اے ایک جگہ جا کر رکتے ہیں اور وہی سائنسی ادم اور سائنسی ہوا ہے۔
اسی طریقے سے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خدا کو کوئی پیدا کرنے والا ہے تو یہ سلسلہ بھی ایک جگہ رکے گا۔لیکن ایک سے زیادہ سپر پاور ہونے کا مطلب جنگیں اور لڑائیاں ہوتا۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ خداؤں کو خدا پیدا کریں۔ہر پیدا ہونے والی ذات مخلوق ہے۔
سائنس بھی یہ مانتی ہے کہ انرجی کو نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے نہ فنا کیا جا سکتا ہے۔اب مسلمان قیاس کر کے انرجی کو خدا کی ذات بنائیں یا خدا کی ذات کے ساتھ جوڑیں یا نہ جوڑیں یہ الگ بات ہے لیکن سائنس کی رو سے ہی ایک قانون بن رہا ہے کہ دنیا میں کائنات میں ایک ایسی شے موجود ہے جس کو نہ تو پیدا کیا گیا ہے اور نہ فنا کیا جا سکتا ہے وہ ہمیشہ سے ہے۔تو اگر سائنس کے مطابق انرجی بغیر خالق کے پیدا ہو سکتی ہے۔تو خدا کیوں نہیں؟ جب کہ خدا نے بھی قران میں کہا ہے کہ اللہ اسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اب اس انرجی کو کوئی نور یا خدا مانے یا نہ مانے لیکن کم از کم یہ قانون اب ماننا پڑے گا کہ یہ ناممکن نہیں ہے کسی ذات کا ہونا جو بغیر پیدا کرنے والے کے ہو اور وہ ہی خالق قل ہو