جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

أبو حيان سعيد

 

آئیے جدید دور کے  چند پاکستانی دانشوروں کا اور ان کی تحاریر کا ذکر کریں جن کی تحاریر کا عرب دنیا اور یورپ میں چرچا ہے . ان کی تحاریر کو عرب دنیا اور یورپ میں متعارف کروانے کی کاوش راقم الحروف نے اپنے مضامین اور لیکچرز کے زر یعہ کی .

جدید دور کے پاکستانی اصلاحی دانشوروں کے بارے میں  مضامین کی اس سیریز میں سب سے پہلا نام  ” علامہ یوسف سیجا صاحب ” کا ہے .

آئیے علامہ یوسف سیجا صاحب کی تحاریر سے کچھ مزید  اقتباسات آپ کی نذر کرتے ہیں ..

علامہ یوسف سیجا بیان کرتے ہیں ..

 

 قرآن کے کلام کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے اس کی

استطاعت کے مطابق کلام کرتا ہے "

 

علامہ یوسف سیجا صاحب فرماتے ہیں ..

 

” قرآن کی تعلیمات گہرے غور و فکر اور تدبر کی متقاضی ہوتی ہیں  قرآن کی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ اس پر غور و فکر اور تدبر کیا جائے یہ کوئی لازمی ٹول نہیں ہے جس کے بغیر قرآن کی تعلیمات کو سمجھا نہیں جا سکتا مثال کے طور پر ایک بوڑھی عورت جو چاند کی روشنی میں چرخا چلا کر سوت کات رہی ہو چاند کے بارے میں اسے بھی بہت کچھ معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی چاند کے بارے میں بہت کچھ سوچتی ہے۔

ہم کلامی کے ذریعے چاند کے بارے میں بہت ساری خود سے باتیں کرتی رہتی ہے۔اسی طرح سے کھلے میدان میں چاند کی روشنی سے فیضیاب ہونے والا ایک شاعر بھی بہت کچھ شعری معلومات رکھتا ہے۔وہ بھی چاند پر بے شماربہترین حکمت پر مبنی شعر کہتا ہے۔ایک سائنسدان بھی چاند کے بارے میں بہت کچھ سوچتا ہے۔جن انسانوں نے چاند پر قدم رکھا ہے وہ بھی چاند کے بارے میں بہت کچھ معلومات رکھتے ہیں۔

وہ قافلے بھی جو چاند کی روشنی میں سفر کرتے ہیں چاند کو جانتے پہچانتے اور مانتے ہیں۔ قرآن کے کلام کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے اس کی استطاعت کے مطابق کلام کرتا ہے۔ ایک قانون دان کو قرآن میں موجود قوانین کی زبان قانون کی طرح ثقیل نظر آتی ہے۔قرآن کو سمجھنے کے لئے قرآن کے مزاج سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔آیت نشانی کو کہتے ہیں۔جب آپ آیت سے گزرتے ہیں تو آپ ایک نشان اور اشارہ لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

کہ یہاں سے اب آپ کو آگے دائیں مڑنا ہے یا بائیں ۔بنیادی طور پر قرآن کی تعلیمات میں کلام کا مزاج ناصحانہ ہے۔ وہ نصیحت کے ساتھ تربیت کرتا چلا جاتا ہے۔قرآن کے کلام کا بنیادی ومرکزی فریضہ معاشرے کے ایک عام فرد کی نصیحت کے ذریعے سے اخلاقی تربیت  ہے۔یہ جو کہتے ہیں کہ صیام کےسلسلے میں ایام معدودات کا مطلب گنتی کے صرف چند دن ہوتا ہے اس کا مطلب ایک مہینہ کیوں لیا جاتا ہے۔قرآن کے قوانین اس کے کلام کی تہہ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ سطح  آب پر تیرتا ہوا کنول کا پھول نہیں ہوتے ۔ نصیحت کے ساتھ تربیت کرنی ہو تو انداز کلام مشفقانہ ہوتا ہے.”

 

کیا  ریاست  کا  مذہب  ہوتا  ہے؟

اس سوال کے جواب میں علامہ یوسف سیجا صاحب فرماتے ہیں ..

 

” نوع انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کا کوئی نہ کوئی مذہب ہمیشہ رہا ہے جمہوریت کی دریافت  نے نوع انسانی کےسامنے شوریٰ کا نظام رکھا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے ۔ اسلام اور  جمہوریت کے درمیان فاصلہ صرف اتنا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار کس کے پا س ہونا چاہئے۔  اسلام  کہتا  ہے کہ انسانوں کے خالق کے  پاس یہ اختیار ہونا چاہئے ۔

جمہوریت کہتی ہے کہ خالق  کے بندوں کے پاس  یہ  اختیار ہونا  چاہئے  بات  صرف  اس  فاصلے  کو  پاٹنے  کی  ہے  نوع  انسانی اب  یہ  طے کر چکی ہے  کہ  ریاست   کا  کوئی مذہب  نہیں ہونا چاہئے۔  ریاست  صرف  قوانین  کی  بنیاد  پر کھڑی  ہوتی  ہے۔ ریاست  ایک  نظام  کا  نام  ہے ۔ سوال  یہ  ہے  کہ  اس  نظام  کو کون  بنائے گا ؟  یہ  ریاستی  اداروں کا کام  ہے۔  ریاست  کے  بارے  میں ایک  نظریہ  یہ  بھی  ہے کہ "ریاست  ماں جیسی  ہوتی ہے”.

یہاں  سوال  پیدا  ہوتا ہے کہ  ریاستی  ادارے جن  قوانین   سے ریاست  کا  نظام   ترتیب  دیتے  ہیں  ان  قوانین  کے  اخذ  کرنے  کا ذریعہ  ان  کے  پاس  کیا  ہے؟  جواب  صرف  ایک  ہے۔ قوانین  کو  اخذ  کرنے  کا  ذریعہ "کتاب”  کے  سوائے  کوئی اور  نہیں  ہو سکتا  ۔ دوسرا  سوال یہ ہے کہ  اس  مقصد   کے  لئے  وہ  کون سی  کتاب  کا انتخاب   کریں  گے؟

جواب  صرف ایک  ہے کہ  ایسی  کتاب   جس  میں  قوانین  درج  ہیں۔ سارے  سائنسدان  اس  پر متفق  ہیں  کہ  وہ کائنات  میں موجود  فطرت  کی کتاب  ہے جس میں فطرت  کے قوانین درج  ہیں۔ فطرت  کے قوانین  کو  ہم  پڑھتے ضرور  ہیں لیکن  اسے اپنے ہاتھ  سے لکھتے  نہیں ہیں۔ اس کا  مطلب  یہ  ہوا  کہ ہمیں  انسانی  زندگی  سے متعلق  بھی ایسے  قوانین  کی  ضرورت  ہے جسکو  ہم   پڑھ  سکتے ہوں  لیکن اسے اپنے ہاتھ  سے لکھ نہ سکتے ہوں ۔جدیدد نیا  میں ایسے  قوانین صرف قرآن مجید ہی  میں موجود  ہیں اور قرآن مجید کا اسپر دعویٰ بھی  ہے۔ اس دعویٰ کوقرآن مجید  ہی نے سچ کر دکھانا  ہے ..”

 

سوال: کیااسلام زرتشت مذھب کی نقل ہے؟

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

جواب  میں  علامہ یوسف سیجا صاحب فرماتے ہیں ..

” اسلام زرتشت مذھب کی نقل نہیں ہے

باقی کچھ باتیں عربی کلچر ،ایرانی کلچر ،رومی و یونانی کلچر کی  ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں وراثتوں اور انکے اثرات کو ایک طرف نہیں رکھا جا سکتا۔ زرتشتی مذہب کا فراموش کردہ مذہب صرف یہ سمجھنے کی کلید فراہم کر سکتا ہے کہ ہم سب اور وہ سب ایک دوسرے سے کتنے مماثل ہیں۔کسی بھی دو مذاہب کے درمیان مماثلت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کا چربہ ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک مذہب میں زندہ رہنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے

لہٰذا اب وہ مذہب انسانوں کی رہنمائی کے فرائض ادا نہیں کر سکتا۔آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ چلا ہوا کارتوس ہیں۔ یہ جسے ہم اقوام گزشتہ کہتے ہیں ان کے ساتھ بھی تو یہی معاملات ہوتے ہیں ان سے دنیا کی امامت کے مقام کو واپس لے لیا جاتا ہے اور امامت کا مقام اسے دیا جاتا ہے جو زندہ ہو۔ اس کا یہ قطعاً مطلب  نہیں ہوتا کہ وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے یا اس کا وجود باقی نہیں رہا۔اس قوم میں اور آج ہم میں کیا کوئی فرق ہوتا ہے؟ وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہوتے ہیں۔

پھر اگر کلچر یا نظریات یا کتابوں میں اور مذاہب میں مماثلت ہو تو کیا مضائقہ ہے۔اللہ نےاب امامت کا منصب قرآن مجید اور اس وحی کو پانے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو عطا فرمایا ہے۔ اگر یہ امت بھی امت وسط نہ بن سکی اور اپنے فرائض منصبی کو پہچاننے میں پیچھے رہ گئی تو پھر اللہ کا یہ وعدہ تو نہیں ہے کہ یہ منصب اس سے لیا نہیں جا سکتا۔

قرآن مجید اقوام گزشتہ کے انبیاء پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ جو دعاوی ان کتابوں میں موجود ہیں وہ بالکل سچے دعاوی ہیں عملی طور پر سچے ہو سکتے ہیں لیکن انہیں سچا ثابت کرنے کے لئے جو تعلیمات اس کتاب میں موجود ہیں ان میں تحریف ہو چکی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ دعاوی عملی طور پر سچے یعنی صدق کے مقام پر ثابت ہو جائیں تو انہیں پھر قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔کیونکہ اس وقت دنیامیں آسمانی کسوٹی قرآن مجید کی صورت میں ہی رہ گئی ہے۔ "

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles