جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ:پروفیسر عبدالرحمان کے افکار 

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ قسط 2

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ:پروفیسر عبدالرحمان کے افکار

جدید اصلاحی ادب ایک جائزہ:پروفیسر عبدالرحمان کے افکار

جدید اصلاحی ادب کی سیریز میں پروفیسر عبدالرحمان کے افکار کا جائزہ پیش خدمت ہے ..

 

اگر ایک طرف دھیمی رفتار سے بہنے والی ندیاں ہیں  تو دوسری طرف تیز و تند دریا بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ رواں دواں نظر آتے ہیں ، ایک طرف پند و نصح کی فراوانی و لفاظی  ہے تو دوسری طرف سچی اور کھری بات کی کسوٹی ہے ، آج جدید اصلاحی ادب کی سیریز میں پروفیسر عبد ا لرحمان کی  ذکر خیر کی محفل ہے . سچی اور کھری بات کہنا آپ کی خاصیت ہے . کسی کو لطیف پیرائے میں سچی اور کھری بات سمجھانا کوئی آپ سے سیکھے ، فلسفیانہ طرز کی گفتگو سے پرہیز آپ کو اوروں سے منفرد بناتا ہے .

قرآن کریم سے آپ کی محبت ایسی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف بات آپ سے برداشت نہی ہوتی اور لہجہ سخت ہو جاتا ہے ، ایسا کئی بار ہم نے دیکھا ہے اور راقم یہ گواہی دیتا ہے کہ  پروفیسر عبد ا لرحمان قرآن کریم کی تعلیمات پر کسی بھی قسم کا کوئی کمپرومائز کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے .آپ کا ارتکاز قرآن کریم کی تعلیمات  ہیں .

کچھ منتخب اقتباسات پیش خدمت ہیں .

 

” اللّہ تعالیٰ ہدایت کے نام پر صرف ایسی ہدایت ہی بھیجتا رہا ہے کہ جسے ایک عامی کا فہم و ادراک بھی اتنا ہی کیچ کرلے جتنا کہ ایک نبی کا ۔ وہ چیستاں نہیں بھیجا کرتا۔

اللّہ تعالیٰ نے شیکسپیئر کا کلام ہدایت کے نام پر نہیں بھیجا بلکہ اپنا کلام —- قرآن مبین ، فرقان مبین اور قول فیصل کے نام سے بھیجا ہے جسے دیکھتے اور سنتے ہی ایک عام آ دمی بھی اتنا ہی سمجھ لے جتنا کہ ایک نبی ۔ گویا کہ اسے سنتے اور اسے برتتے ہوئے عام و خاص، ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ تو اس کے دل کی آ واز ہے ۔ اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ” گویا کہ یہی میرے دل میں تھا۔ "

دل کی آ واز ناقابل فہم نہیں ہوا کرتی ، لیکن مولویوں اور فقہاء نے دل کی اس آ واز کو ، فطرت سلیمہ کی اس پکار کو ہر لحاظ سے چیستاں بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس قرآن کو مہجور بنایا جاسکے اور لوگوں کو اس سے دور رکھا جا سکے اور وہ سب اپنی اس کوشش میں عوام الناس کی اکثریت کی حد تک صدیوں سے اگرچہ بظاہر کامیاب ہیں لیکن اللہ کی نظر میں :ھذا خسران مبین: کا مصداق ہیں۔

بد قسمتی سے آ ج  بھی وہ سب  اسی کام میں لگے ہوئے ہیں ، نہ خود قرآن کو اپنے دماغ کی بتی روشن کرکے براہِ راست سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ لوگوں کو سمجھنے دینا چاہتے ہیں ، بس ایک شوق فضول میں لگے ہوئے ہیں اور blind vision کے شکار راویوں کی عینک کو رسول کی عینک قرار دے رہے ہیں۔ "

” ازروئے قرآن ، قبر نہ جنت کی کوئی جھلک ہے اور نہ جھنم کی کوئی ریہرسل ہے۔ یہ محض ایک گڑھا ہے جہاں یوم حشر تک اندھیرا ہی اندھیرا اور سناٹا ہی سناٹا ہے ۔ نہ زندگی کی کوئی رمق اور نہ شعور کی کوئی تجلی ، نہ جسم میں کسی نام نہاد روح کی انٹری اور نہ کسی منکر نکیر کی پوچھ گچھ ، بس جسم کا ریزہ ریزہ ہوکر مٹی میں مل جانا ہے۔ رزق خاک بن جانا ہے۔ اور یوم حشر کو دوبارہ ریزے ریزے کا مل کر قبر سے اٹھ کھڑے ہونا ہے۔

الیہ مرجعکم جمیعا”. وعداللہ حقا”. انہ یبدء الخلق ، ثم یعیدہ’ لیجزی الذین آمنوا و عملوالصلحت بالقسط۔ والذین کفرو لھم شراب من حمیم وعذاب الیم بما کانوا یکفرون۔ سورہ یونس ،ایت 4

قسط کے ساتھ جزا و سزا صرف روز قیامت ہی ہوگی ، اس سے پہلے قسط کے ساتھ ممکن ہی نہیں ۔ اس لیے، بابا ، عذاب قبر کی یہ سب کہانیاں قصہ خوانیاں ہیں ، افسانے اور کہانیاں ہیں۔ "

 

” عذابِ قبر کا سارا دارو مدار اس بنیاد پر ہے کہ جسم میں روح نام کی کوئی لطیف شے بھی ہوتی ہے جسے فنا نہیں ہے اور جو آ غاز زندگی میں جسم کے اندر انجیکٹ کردی جاتی ہے اور بوقت وفات جسم سے باہر نکال لی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ بندہ مردہ ہوجاتا ہے۔ اور ساتھ ہی پھر اس کی "روح” کو فرشتے کسی ریپر ٹائپ کی چیز میں لپیٹ کر آسمانوں کی بلندیوں پر کہیں دور دراز لے جاکر روح کے اس پارسل کو جمع کروادیتے ہیں اور پھر حیرت کی بات ہے کہ دفن ہوتے ہی پھر اسے کسی میزائل کی طرح آ سمانوں سے لانچ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ دفن شدہ باڈی کے ساتھ اٹیچ ہوکر اسے کچھ نہ کچھ لائف ، اور خوشی یا تکلیف کا سینس عطا کر سکے اور قبر میں ” منکر نکیر” کے ساتھ  مذاکرات کر سکے۔

روحانیت ، باطنیت ، تصوف ، مزارات اور ایصال ثواب کی ساری فریب کاریاں اسی تصور روح پر مبنی ہیں جبکہ قرآن میں سرے سے روح کا کوئی ایسا تصور ہی نہیں ہے۔ قرآن زندہ انسانی جسم کو دیگر حیوانات کی طرح صرف فزیکل باڈی اور حیات یعنی life کے مجموعے کی combination سے تعبیر کرتا ہے اور جب لائف ختم ہوجاتی ہے تو وہ باڈی محض بےجان ، بےشعور اور گلنے سڑ نے والا بے جان وجود  رہ جاتا ہے، گویا کہ ایک زندہ وجود قیامت تک کے لیے وجود سے عدم وجود میں تبدیل ہو جاتا ہے ، ایسے ہی جیسے وہ ماں کے پیٹ میں وجود میں آ نے سے پہلے حالت عدم میں تھا .”

 

” اچھی تلاوت قرآن سننے کے شوق میں آ ج اپنی مسجد ، انتہائی  اونچی آ واز کے  سپیکرز کی وجہ سے  چھوڑ کر مین روڈ پر واقع ایک اور مسجد میں نماز عشا کے لیے گیا تو مسجد کے  قاری صاحب نے  نماز عشا میں  بہت اچھی تلاوت کی ۔  دل خوش ہوگیا ۔  سوچا فرض نماز کے بعد  صلاة التراویح یعنی قیام الیل میں بھی تلاوت کا لطف اٹھالیا جائے ۔ لیکن جب صلاة  التراویح میں انہوں نے تلاوت شروع کی تو قرآن کا وہ حشر کیا اور وہ وہ دھوبی پٹڑے مارے  کہ الامان  الحفیظ ! نہ یہ پتہ چل رہا تھا کہ سوپر سانک سپیڈ سے ادا کیے جانے والے الفاظ کیا ہیں اور آیات کون سی ہیں ، ا

لفاظ بھی  آ دھے آ دھے توڑ کر ادا کیے جارہے تھے ۔ اللّہ کی کتاب کے ساتھ اتنا بڑا ظلم  اور اتنا بڑا مذاق  ؟ اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ اسے ثواب سمجھ کر کیا جا رہا ہو !  طبیعت بہت خراب ہوئ لہذٰا  دو رکعت کی ادائگی کے بعد ہی فوراً  مسجد سے باہر نکل آ یا اور نکلتے نکلتے مسجد کے ایک طالب علم کو یہ پیغام دیا کہ قاری صاحب سے کہنا کہ خدا کے لیے قرآن پر یہ ظلم نہ کریں اور ترتیل کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں ۔

 سوچتا ہوں کہ جب  مولویوں اور قاریوں کو خود قرآن سے  پوری زندگی یہ سمجھ نہ آ سکی کہ  قرآن کی تلاوت   ترتیل کے ساتھ کرنی مقصود  ہے  جس کا  قرآن  میں  کلام کے مالک کی طرف سے واضح  حکم دیا گیا ہے   ، نہ کہ سوپر سانک سپیڈ کے ساتھ کرنی ہے  ،

تو جب اتنی سی  بات ان لوگوں  کو قرآن سے سمجھ میں نہیں آ سکی تو پھر  انہیں قرآن سے وفات مسیح کا  حقیقت ہونا  اور نزول مسیح کا افسانہ  ہونا کیسے سمجھ  میں  آ ئے گا ۔  یہ لوگ جو کروڑوں  نوری سالوں پر واقع خلاؤں ، کہکشاؤں اور آسمانوں سے عیسیٰ علیہ السلام کے بھی کسی  سپیس راکٹ  کی طرح سوپر سانک سپیڈ کے ساتھ  زمین پر نزول کے قائل ہیں ، وہ قرآن کو بھی سوپر سانک سپیڈ سے نہیں پڑھیں گے تو اور کیا کریں گے ۔”

  اللّہ اس امت پر رحم فرمائے اور  جھالت کی آلودگی سے اسے  محفوظ رکھے۔ آ مین۔

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles