جدید اصلاحی ادب,ایک جائزہ

جدید اصلاحی ادب,ایک جائزہ

جدید اصلاحی ادب,ایک جائزہ

جدید اصلاحی ادب,ایک جائزہ

حصّہ اول ..

أبو حيان سعيد

آئیے جدید دور کے چند پاکستانی دانشوروں کا اور ان کی تحاریر کا ذکر کریں جن کی تحاریر کا عرب دنیا اور یورپ میں چرچا ہے . ان کی تحاریر کو عرب دنیا اور یورپ میں متعارف کروانے کی کاوش راقم الحروف نے اپنے مضامین اور لیکچرز کے زر یعہ کی .

جدید دور کے پاکستانی اصلاحی دانشوروں کے بارے میں مضامین کی اس سیریز میں سب سے پہلا نام ” علامہ یوسف سیجا صاحب ” کا ہے .

قرآن پاک کی تعلیمات سے ان کی گہری محبت اور فہم قابل تعریف ہے۔ اپنے علم سے حکمت کے موتی پیدا کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب علمی و ادبی اور منطقی دلائل سے بھرپور ہے۔ پیچیدہ فلسفیانہ گفتگو سے بے نیاز…الفاظ کا چناؤ اور انداز بیان اتنا دل نشیں ، آسان ، قابل فہم اور پراثر ہے جو قاری یا سامع کے ذھن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے .

انہوں نے کبھی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ ہمیشہ اپنے خیالات کا اظہار ٹھوس و مدلل اور نہایت شائستہ انداز میں کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تحاریر کا اسلوب علامہ ابن حزم ظاہری کی یاد دلاتا ہے . ایک اور خاص بات علامہ یوسف سیجا کا طرز تحریر ادارتی ہے۔ تحریر مختصر لیکن مدلل ہوتی ہے ، میں نے دیکھا ہے کہ اختلاف رائے کو انتہائی خوشدلی اور سہولت سے قبول کرتے ہیں.

آئیے علامہ یوسف سیجا صاحب کی تحاریر سے کچھ اقتباسات آپ کی نذر کرتے ہیں ..

علامہ یوسف سیجا بیان کرتے ہیں ..

” نوع انسانی پرایک دن عنقریب ایسا آنے والا ہے جب قرآن مجید کی کتاب اپنی تمام تر سچّائیوں سمیت نوع انسان پر اپنی حقیقتوں کے ساتھ آشکار ہو جائے گی یہ کتاب نوع انسان کی واحد ضرورت بن جائے گی،قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات کے سامنے دنیا بھر کی تمام اخلاقی تعلیمات ماند پڑ جائیں گی،پڑھنے کے قابل صرف ایک کتاب رہ جائے گی اور وہ قرآن مجید ہے،

آج کا دور جھوٹ کا دور ہے،آج کا دور مصنوعات کا دور ہے،آج کے دور کی ساری سچائیاں اور سارے اخلاق مصنوعی ہیں،سچائیاں بھی مصنوعات کی طرح فیکٹریوں میں تیار ہوتی ہیں،آپ اپنی مرضی اور پسند کی سچائیاں مصنوعات کی طرح حاصل کر سکتے ہیں مصنوعی سچائیوں کی اتنی بھرمار ہے کہ قوموں کے پاس تیل کے کنوؤں سے زیادہ اس کے ذخائر موجود ہیں،

خوبصورتی سے لے کر طاقت،جوانی،علم، عہدہ،سب کچھ صرف آپ کے ایک ،،ٹچ،،سے دوری کے فاصلے پر ہیں ایمانداری ہو یا خلوص،باپ کی شفقت ہو یا ماں کی مامتا،اخوت کے ذریعے دلوں کا مل جانا اور بھائی بھائی بن جانا ہو،صفائی ستھرائی ہو یا پیسے والا بن جانا ہو،دنیا کی بہترین حکمت سے بھرپور کہانی ہو،یعنی دنیا کی کوئی بھی حسین ترین چیز یا رشتہ ہو جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں مصنوعات کی شکل میں آپ کو بازار سے سب کچھ مل جائے گا، جس طرح کا آپ پھل کھانا چاہیں جس طرح کے پھول کی خوشبو آپ سونگھنا چاہیں

جس طرح کا کھانا آپ کھانا چاہیں آج کل یہ سب کچھ فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے سب کی حیثیت مصنوعی ہے مصنوعات کی قطار میں شیلف میں رکھی ہوئی ہیں اور آپ کا انتظار کر رہی ہیں،یہ وہ تمام مصنوعات ہیں جنہیں آپ موسم کے بدلنے کے ساتھ ہی بدل لیا کرتے ہیں سردیوں کے جاتے ہی لحاف یا تو بند کر کے رکھ دیتے ہیں یا اسے ضائع کر دیتے ہیں،گرمیوں کے آتے ہی ایسی مصنوعات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جو آپ کو ٹھنڈ پہنچائے،یہ ایسے ہی ہے

جیسے آپ تھک جانے کے بعد کام کاج سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور دراز ہو کر لیٹ جاتے ہیں یا کہیں سیر و تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں،ان مصنوعات کی دنیا میں مشرق سے مغرب کی طرف بھاگ کر جانے والوں کے سامنے سوائے مصنوعات کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں ہوتا،آج کا انسان مصنوعات کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے آنکھوں والے کی تو مجبوری ہے اس کی آنکھوں کے سامنے سوائے مصنوعات کے کچھ نہیں ہوتا لیکن مصنوعات کے پہاڑوں کے درمیان نابینا انسان بھی محفوظ نہیں ہے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم انسان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں

جتنا کچھ مصنوعات کی مصنوعی دنیا نے انسان کا بگاڑ دیا ہے،اگر مصنوعات کی اس مصنوعی دنیا سے آپ کی روح چھلنی ہو چکی ہے،اور آپ غیر محسوس وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانس لے رہے ہیں،اور اس سے آپ نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں،تھوڑے وقت کے لئے کسی حقیقی دنیا کا سفر کرنا چاہتے ہیں سچائیوں کو محسوس کرنا چاہتے ہیں،تو میرا مشورہ ہے قرآن پڑھا کریں،قرآن پر غور و فکر اور تدبر کیا کریں، یقین جانیئے آج کی ترقی یافتہ دنیا میں حق اگر کہیں سےآپکو مل سکتا ہے تو یہی ایک کتاب ہے جسے قرآن مجید کہتے ہیں .مصنوعات کی دنیا میں غیر مصنوعی تعلیم صرف اس کتاب کے اندر ہے .”

ایک اور جگہ رقم طراز ہیں ..

” قرآن جب کوئی اصول،کلیہ، نظریہ، آئیڈیا جو کہ بسیط abstract ہوتا ہے پیش کرتا ہے تو اسے محسوس شکل concrete میں لانے کی مثالیں بھی دیتا ہے تاکہ ایک غیرمحسوس چیز محسوس شکل میں آ جائے،قرآن کریم محسوس مثالوں سے محسوس انداز میں اس کی خوب خوب وضاحت کرتا ہے

کیونکہ قرآن کسی بھی نظریئے کو یا کلیہ کو تصوراتی یا ideal نہیں رہنے دیتا،اسلئے کہ کوئی شخص خود فریبی میں مبتلا نہ ہو جائے دنیا میں خود فریبی کی بھی گمراہیاں موجود ہیں اور فریب کاروں کی پھیلائی ہوئی گمراہیاں بھی موجود ہیں اگر محسوس انداز میں مثالوں کے ذریعہ قرآن میں وضاحت موجود نہ ہوتی تو ہو سکتا ہے اس کلیہ یا اصول کا اتباع محض ایک دھوکہ ثابت ہوتا،

قرآن نے ایسا کرکے انسان کو غلط طریقے پر چلنے سے بچا لیا ہے قرآن صداقت کو بیان کرتا ہے قرآن حقیقت کو بیان کرتا ہے قرآن اس صداقت اور حقیقت کو غیر محسوس نہیں رہنے دیتا وہ بار بار مثالیں پیش کرکے اسے محسوس شکل میں لے کر آ جاتا ہے تاکہ اس کے پرکھنے میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہ رہے انسان کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ جس چیز کی ہم آرزو کر رہے ہیں یہ وہی چیز ہے

اس میں کہیں التباس نہیں ہے اس میں شک و شبہ نہیں ہے ابہام دھوکہ فریب نہیں ہے قرآن جب بھی اپنے کلیہ کو صداقت کو آگے چل کر محسوس شکل میں ماضی کے تاریخی شواہد کے ذریعے پیش کرتا ہے تو زمانہ ماضی میں یہ کہہ کر کرتا ہے یہ چیزیں ہو چکی ہیں وہ لوگ گزر چکے ہیں اب تاریخ اس قسم کی شہادت دے گی کہ وہ لوگ کون تھے "

ایک اور جگہ آج کے حالات کے بارے میں فکر انگیز گفتگو کرتے ہیں ..

” آپ کبھی یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہوں گے کہ ایک اتنا پڑھا لکھا نوجوان کامیاب وکیل ہے کئی ڈگریاں ہیں کیا اسے بھی سیاسی پارٹی کے قائد کی طرف سے دی گئی اس فینٹسی کی ضرورت ہوتی ہے؟کون سی جنت کی نعما ء ہیں جو اس نوجوان وکیل کے اپنے گھر میں نہیں ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ اس نوجوان کو یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے صبح سے رات تک محنت کرنی پڑتی ہے،اسے ہر ایک سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے،

ہر روز قانون کی پابندی وپاسداری کے لئیے خود کو تیار رکھنا پڑتا ہے خون جب پسینہ بن کے ٹپکتا ہے تب جا کر یہ سب کچھ حاصل ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا سفر اور اس کی منزل اسکا اپنا گھر، کورٹ اور آفس ہوتا ہے،وہ اپنے لوگوں میں مشہور ضرور ہوتا ہے لیکن عام لوگوں میں اس کی پہچان نہیں ہوتی، لیکن یہی نوجوان اگر ایک جلسے کی قیادت کر رہا ہو،پولیس والوں کو للکار رہا ہو،پولیس والے اس کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں میڈیا والے آگے اور پیچھے اس کی تصویریں لے رہے ہوں،صحافی اس کی تعریف میں آسمان کی قلابیں ملا رہے ہوں،

رات بھردرجنوں چنیلز کے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں رنگ ہرنگے اینکر حضرات اس کی تائید اور تنقید میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوں گے ، پیچھے بیٹھے ہوئے پروڈیوسر اور ہدایت کار نے سلطان راہی کو اور مصطفی قریشی کو سارے لوازمات کے ساتھ میدان میں اتارا ہوا ہو، یعنی گنڈاسا سمیت اسٹیج مکمل طور پر مہیا کردیا گیا ہو،تو پھر سلطان راہی کی للکار میں گرج،اور چمک آجاتی ہے پھر بجلیاں کڑکتی ہیں اور برق گرتی ہیں، کیا آپ اس fantasy کا تصور کر سکتے ہیں؟ "

~~

کائنات کا آرکیٹیکٹ کون ہے ؟

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles