ایک ملحد خاتون سے مکالمہ
ایک ملحد خاتون سے مکالمہ
بی بی:میرا سوال یہ ہے کہ انسان میں جو برائی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے والا خود انسان ہے یا خدا کی طرف سے
ہے۔
اسامہ:خدا نے اپ کو اچھائی اور برائی کا علم دیا ہے۔اور اپ کو با اختیار بنایا ہے اچھائی کرنا یا نہ کرنا برائی کرنا یا نہ کرنا اب یہ اپ کے اختیار میں ہے اور اس کے ذمہ دار بھی اپ ہیں۔
مثال کے طور پر میں نے وضو کیا اور مصلحہ اٹھا لیا عین اسی وقت میرا ایک دوست ایا اور اس نے مجھے گناہ کی دعوت دی اب گناہ والی جانب جانا یا مصلحہ لے کر عبادت کرنا یہ دونوں میرے اختیار میں ہیں۔ان دونوں راستوں میں سے اب جو میں راستہ چنوں گا وہی میرا فیصلہ ہوگا۔
لہذا خدا نے قواعد و ضوابط بنا کر صحیح اور غلط کی تمیز انسان کے عقل کو دے دی یعنی اگر غیر ملحدانہ گفتگو کی جائے تو سادہ الفاظ میں انسان کے نفس کو ازاد پیدا کر دیا۔
بی بی:اتنی لمبے کمینٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ تو بچوں کو بھی پتہ ہے
اسامہ:یہ کمنٹ نہیں میسج ہے
بی بی:اوکے
اسامہ:اپ کو غالبا سمجھ نہیں ائی اتنا لمبا میسج کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اپ کو سمجھ آ جائے۔ میں نے اپ کو تخلیق انسان کی پوری بات سمجھائی ہے۔کہ برائی کرنے کا اختیار اگر انسان کو ملا ہے تو کیسے ملا ہے۔
دوسری بات اگر یہ بچوں کو بھی پتاہے تو اپ کو کیوں نہیں پتا؟
میں اپ کو جواب دے چکا ہوں اور جواب بھی دو دفعہ دے چکا ہوں لیکن اپ نے غور نہیں کیا۔تیسری دفعہ میں دوبارہ جواب دے دیتا ہوں کہ انسان کو اگر برائی کرنے کا اختیار ملا ہے تو وہ کیسے ملا ہے۔
اور وہ جیسے ملا ہے میں اپ کو بتا چکا ہوں۔
بی بی:میں نے اپ سے اختیار کے بارے میں سوال نہیں کیا
میری سوال یہ ہے کہ انسان میں جو برائی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے والا خود انسان ہے یا خدا کی طرف سے ہے۔
اسامہ:جی بالکل اپ نے صلاحیت کا پوچھا ہے
بی بی:جی بلکل
اسامہ:اختیارہوگا تو صلاحیت ہوگی۔
بی بی: جی بلکل
اسامہ:مثال کے طور پر اپ کے ساتھ گفتگو کرنے کا ذریعہ اس وقت میرا فون ہے اگر میرا اختیار میرے فون پر نہ ہوتا تو اپ سے گفتگو کرنے کی صلاحیت میرے پاس نہ ہوتی
بی بی:بلکل
اسامہ:جی محترمہ اسی لیے میں اپ کو شروع سے سمجھا رہا تھا کہ خدا نے انسان کو فیصلہ کرنے کے معاملے میں ازاد تخلیق کیا ہے۔
بی بی :جی بلکل
اسامہ:فیصلہ تب کرے گا جب اختیار ہوگا اور اختیار ہوگا تو صلاحیت ہوگی
بی بی:برائی کرنے کی صلاحیت انسان کے اندر کہاں سے ائی
اسامہ: اچھائی کرنے کی صلاحیت انسان کے اندر کہاں سے ائی ؟
بی بی: خدا کی طرف سے
اسامہ: بالکل بالکل برائے کرنے کی صلاحیت بھی اپ وہیں سے مانیں
بی بی: برائی کرنے کی صلاحیت بھی خدا کی طرف سے ائے ؟
اسامہ: جی بالکل میں یہی کہنا چاہتا ہوں
بی بی: تو پھر اصل میں برائی کا ذمہ دار انسان نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار بھی خدا ہے
اسامہ:اپ سے برائی زبردستی تو نہیں کروائی گئی اپ کو تو صرف اختیار دیا گیا تھا اور بتایا بھی کیا تھا کہ یہ بری چیز ہے۔اپ نے پھر بھی وہ کیا تو ذمہ دار اپ ہیں۔جس نے اپ کو صلاحیت دی اور پھر بتایا درحقیقت اس نے تو اپ کو ازادی دی۔
اہم بات یہ کہ جب اپ برائی کرنے لگے تھے اسی وقت اپ نے اچھائی کیوں نہ کی؟؟؟؟
بی بی:دونوں خدا کی طرف سے ہے
یہ سوال ہم خدا سے نہیں کر سکتے
اسامہ: بالکل میں مانتا ہوں کہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں۔اگر خدا کو ہم ذمہ دار ٹھہرائیں تو ہم اس کو ذمہ دار تب ٹھہراتے جب وہ ہمیں ایک چیز دیتا۔اس نے ہمیں دو چیزیں دی اور دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد اپ بھی ماشاءاللہ سمجھدار ہیں جب دو چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہوں تو ان کو ایک دوسرے کے درمیان فرق کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔جب دو چیزیں اگئی تو صاف ظاہر ہے ان دونوں پر اختیار اپ کا ہے نہ کہ ان کا اختیار اپ پر ہے۔اب جن پر اختیار اپ کا ہے ان میں سے کوئی منفی کام سرزد ہو جانا اس میں کمزوری اپ کی ہے نہ کہ اس کی جس نے اپ کو اختیار دے کر اپ کو ازاد کیا اور اپ کو ازادی دی
بالکل سوال ضرور کرنا چاہیے تھا لیکن یہ سوال بنتا نہیں ہے۔یہ سوال بغیر سمجھے کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے ہم ریاضی کے استاد سے پوچھیں کہ دو جمع دو پانچ ہوتا ہے۔
بی بی: نہیں جی انسان برائی اس لۓ کرتا ہے جب وہ مجبور ہوجاتا ہے اور یہ مجبوری بھی خدا کی طرف سے ہے
اسامہ: یعنی اپ اس چیز کو تسلیم کر رہی ہیں کہ انسان جب مجبور ہوتا ہے تب وہ برائی کرتا ہے یعنی اول تو مجھے اپ کے اس میسج سے یہ لگا کہ کم از کم اپ یہ مان گئی ہیں کہ انسان برائی کو خود انجام دیتا ہے۔ دوسری بات اکثر مقامات پر مجبوری کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اسلام مجبور کے اوپر حد نہیں لگاتا۔
اسامہ: اپ سے میرا چھوٹا سا سوال ہے۔
اپ ایک گاڑی چلا رہی ہوں۔اپ کے پیچھے ایک گاڑی کھڑی ہو اپ جان بوجھ کر ریورس گیئر لگائیں اور پیچھے کھڑی گاڑی میں اپنی گاڑی ٹھوک دیں۔تو اپ کو کیا لگتا ہے اس میں قصور کس کا ہوگا ؟
بی بی: خدا کی غلطی ہوگا کیونکہ میری عقل دماغ شعور چلانے والا خدا ہے
اسامہ: اس بحث پر اپ اپنی توجہ مرکوز رکھیں میں نے اپ کو شروع میں ہی واضح کیا ہے کہ خدا نے انسان کو با اختیار بنایا ہے۔وہ جو سوچے جو مرضی کرے۔وہ ازاد ہے اس معاملے میں یعنی ایک انسان اگر خدا کے خلاف سوچتا ہے تو خدا نے اس کی تخلیق اور اس کے شعور کو ایسا بنایا ہے کہ وہ خدا کے خلاف بھی سوچ سکتا ہے۔ اور پھر تو اپ کو امریکہ اور یورپ میں موجود ممالک کے خلاف ان کی جاہلیت پہ اواز اٹھانی چاہیے۔
بی بی:نہیں جی اس کا یہ مطلب یہ اپکی معاشرےاور تربیت پر ڈیپنڈ کرتا ہے
اسامہ: نہیں جی اپ نے جواب غلط دے دیا اپ کو امریکہ اور یورپ کی جاہلیت پر اس لیے اواز اٹھانی چاہیے کیونکہ ان ممالک میں جو لوگ قتل کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کو کرنٹ والی کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے وہ ان کے ساتھ ظلم ہے کیونکہ بقول اپ کے یہ کام معاذ اللہ خدا کروا رہا ہے۔جبکہ ہمارے نزدیک خدا نے انسان کو فیصلہ کرنے کے معاملے میں ازاد بنایا ہے وہ اچھائی کرے یا برائی کرے اس کا ذمہ دار انسان ہے اور فیصلہ کرنے والا بھی انسان ہے
اسامہ: اب جو اپ نے میرے سوال کا جواب دیا ہے اسی پر میں تھوڑی بات کروں گا۔اپ نے خدا پر تو اعتراض کر دیا لیکن کار کو بنانے والی کمپنی پر نہیں کیا اپ ان پر بھی اعتراض کریں کہ اپ نے جان بوجھ کر پیچھے کھڑی کار کو ریورس گیئر لگا کر ٹھوک دیا
اس میں اپ کا قصور نہیں ہے اس میں اپ نے خدا کو قصور وار ٹھہرایا کہ اس نے اپ کو عقل کیوں دی دوسرا کمپنی پر اپ اعتراض کریں کہ اس نے ریورس گیئر کیوں دیا۔اپ کم از کم کمپنی پر اعتراض کر کے ابھی بھی دیکھ لیں کہ اس نے ریورس گیئر کیوں دیا۔تو اپ کو بہتر الفاظ میں سمجھائیں گے کہ بی بی اگر ہم نے گیئر دیا ہے تو اس کا کنٹرول بھی اپ کے ہاتھ میں دیا ہے
بی بی: انسان ہر کچھ کرسکتا ہے لیکن اپنی معاشرے اور تربیت کے مطابق
اسامہ: یعنی اپ یہ مانتی ہیں کہ انسان تربیت کے بعد کچھ بھی کر سکتا ہے یعنی وہ ازادانہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس نے اچھائی کرنی ہے یا برائی ؟
بی بی: میری جسم میں ایسا ایک چیز بھی نہیں ہے جو میں نے خود بنایا ہوں
اسامہ: اس سے اپ کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں
بی بی: میری مالک خدا ہے اب یہ مرضی خدا کی ہے کہ وہ مجھے کیسے استعمال کرے۔میری مثال ایک گاڑی کی طرح ہے ۔
اسامہ: خدا اپ کی روح اور اپ کے وجود کا مالک ہے اس کے بدلے اس نے اپ سے عبادت مانگی ہے۔لیکن اپ کی تخلیق میں اس نے اپ کو ازاد پیدا کیا ہے اس نے ایسا کوئی نظام اپ کے اندر فٹ نہیں کیا
جس سے اپ مجبورا اس کی عبادت کریں کہ اپ سوئے ہوئے ہوں اپ کو ایک نظام زبردستی اٹھائے اور ٹھنڈے پانی تک لے جائیں اور وضو کروا کے اپ سے زبردستی نماز پڑھ پائے مسلمان ہو کر بھی نماز نہ پڑھنا چاہیں تو اس معاملے میں بھی اس نے اپ کو ازاد بنایا ہے۔اب اپ ایک انسان ہو اور اپ خدا پر اعتراض کر رہے ہو لیکن زبردستی اپ کو نہیں روک رہا۔
جی ضرور اپ گاڑی کی مثال ضرور لیں اپ کا وجود ایک گاڑی ہے اپ کا شعور و عقل اس کا ڈرائیور ہے۔یہ شعور و عقل وہی شعور عقل ہے جس کو با اختیار اور ازاد پیدا کیا گیا ہے۔
بی بی: میرا ڈرائیور خدا ہے
اسامہ: خدا نے اپ کو بنایا ہے۔گاڑیاں بنانے والی کمپنی کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اپنی گاڑیاں بنائے اور خود ڈرائیور ہو۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ہونڈا کمپنی گاڑیاں بنائیں اور ہونڈا کمپنی ہی ڈرائیور ہو ؟
بی بی: میں ایک مثال دیتی ہوں۔
اسامہ: ضرور
بی بی: جب ایک انسان غلط کام کرتا ہے تو وہ کیوں غلط کام کرتا ہے ؟
اسامہ: جو کوئی بھی انسان غلط کام کرتا ہے ہر انسان کے پاس ایک الگ وجہ ہوتی ہے۔ایک انسان جو ہے وہ غم کو بھلانے کے لیے شراب پیتا ہے۔
ایک انسان عادتا شراب پیتا ہے
ایک انسان صرف محظوظ ہونے کے لیے شراب پیتا ہے
ایک انسان صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے شراب پیتا ہے
ایک انسان خوشی میں شراب پیتا ہے
اب کام سب نے غلط کیا ہے لیکن وجہ سب کے پاس الگ ہیں
بی بی: جب ایک انسان کوئی وجہ سے غلط کام کرتا ہے یہی وجہ کی بنانے والا بھی خدا ہے
اسامہ: خدا نے مجھے علم و عقل دیا ہے کہ میرا نکاح مری ہوئی عورت سے نہیں ہو سکتا۔اب اس علم و عقل کے باوجود میں ایک مری ہوئی عورت پر عاشق ہو جاؤں اور اس کی قبر پر جا کر التجائیں کروں کہ ا کر مجھے ملو اور میرے ساتھ شادی کرو۔وہ مجھے جواب نہ دے اور میں دل برداشتہ ہو کر شراب پینا شروع کر دوں۔ شراب میں میں اپنا اور اپنے خاندان کا بے شمار نقصان کر دوں۔ اور اخر میں ا کر معاملہ خدا پر ڈال دوں کہ خدا نے مجھے بنایا ہے اس لیے خدا کا قصور ہے۔
اور جو خدا نے مجھے علم اور عقل دی ہے اس کا کیا ہوگا ؟ کیا اس علم اور عقل کو خدا نے نہیں بنایا ؟
بی بی: اگر اپ شادی اک مری ہوئے لڑکی سے کروگے تو یہ بھی خدا کروا رہا ہے ۔اگر نہیں کرو گے تو یہ بھی خدا کروا رہا ہے۔
اسامہ: اگر دونوں باتیں خدا کہہ رہا ہے تو ہم کون سی کریں گے ؟
بی بی: اگر اپ کرو گے یا نہیں کرو گے تو دونوں خدا کی طرف سے ہے۔ لیکن خدا نے تخلیق میں تو اپ کو ازاد پیدا کیا ہے ؟ کرنے نہ کرنے کا اختیار تو اپ کو دیا ؟ حدود و قیود تو اپ کو بتائی گئی ہیں ؟
بی بی: یہ کہانیاں صرف مذہبیوں نے بنائی ہیں ہم صرف فزیکل باڈی ہیں حقیقت میں کچھ نہیں ہیں
اسامہ: فزیکل باڈی میں زندہ رہنے کے عناصر کیا ہیں؟
اپ لوگ عقل کے تابع ہو کر بھی عقل کی نہیں مان رہے
بی بی: میری نظر میں میرا خدا مذہبیوں کے خدا سے الگ ہیں
اسامہ:مسئلہ یہ ہے کہ اپ کا نظریہ اپنی جگہ لیکن جو تعریف اپ نے خدا کی کی ہوئی ہے وہ خدا کی تعریف بالکل نہیں وہ کسی آمر یا ڈکٹیٹر کی تعریف ہے
بی بی: میرے سوالات بہت گہرے ہیں اپ نہیں سمجھو گے
خدا کی تعریف مذہبیوں نے غلط کی ہے
اسامہ: اپ کا سوال میں سمجھ بھی کیا تھا اور اسے چوتھے پانچویں میسج میں میں نے اپ کا جواب بھی دے دیا ہے ماننا نہ ماننا اپ پر ہے۔ اپ ایسے سوالات کو گہرے سوال نہیں کہہ سکتی جو وہ بے بنیاد ہوں۔ جو کہیں نہ کہیں سے خدا کو تو مان رہے ہوں لیکن وہیں پر خدا کی صفات کا انکار کر رہے ہوں۔پھر خدا کو مان کر وہیں پر اس کا انکار کر رہے ہوں۔
اپ کے نزدیک اچھائی کرنا یا برائی کرنا انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ خدا کے اختیار میں ہے۔
پھر وہ سزا کسی کو کس بنیاد پر دے گا ؟
بی بی: میرے سوال کو سمجھ نہیں گئے۔سمجھ جاتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔میں نے کسی صفت کا انکار نہیں کیا۔ میرا خدا میری نظر میں میری عقل سے بالاتر ہے۔خدا کوئی سزا دینے والا نہیں ہے وہ ایک بے پرواہ ذات ہے ۔نہ ہی اسے امتحان لینے کی ضرورت ہے۔اس کو ان چیزوں سے کوئی پرواہ نہیں۔یہ سب من گھڑٹ کہانیاں مذہبیوں نے بنائی ہیں۔
اسامہ: اپ مجھے یہ بتائیں کہ اپ خدا کو سمجھنے میں یا خدا کی تعریف کرنے میں اپ غلط کیوں نہیں ہو سکتی ؟
اپ مجھے دلائل کے ساتھ گرائیں ضد کے ساتھ نہیں۔
بی بی: شاید میں غلط بھی ہو سکتی ہوں۔انسان کمزور ہے۔اور اب جو ٹاپک اپ سے میں ڈسکس کر رہی ہوں۔یہ ایک حقیقت ہے اگر اپ اس سے انکار کرو گے تو اپ کا اپنا نقصان ہے۔
اسامہ: خدا نے پوری اپ کو ایک کتاب دی ہے۔وہ کتاب ائین بھی ہے۔وہ کتاب اپ کے امتحان کی تیاری کے لیے بھی ہے۔اس کتاب میں قواعد و ضوابط بھی ہیں۔اور وہ کتاب خود ایک معجزہ بھی ہے۔خدا نے اپ کو زندگی گزارنے کے اصول اس کتاب میں لکھ دیے ہیں اور ساتھ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اصول قواعد و ضوابط قانون ائین اور امتحان کی تیاری سب یہی کتاب ہے۔اس نے ساتھ امتحان کا بھی بتایا ہے۔جب اس نے امتحان کا بتا دیا ہے تو اس نے امتحان لینا ہے۔اب پاس ہونا یا فیل ہونا یہ انسان پر منحصر ہے۔ ذمہ داریوں سے بھاگ کر خدا کو قصور وار ٹھہرانا یہ ازادی نہیں بلکہ ڈرپوکی ہے۔
بی بی: مجھے اپ ایک ایسا مذہب دکھاؤ جو خود کو غلط مانتا ہو۔اور مجھے ایک ایسا مذہبی دکھاؤ جو اپنے مذہب کو غلط مانتا ہو۔
اسامہ: جو تعریف اپ نے اپنے خدا کے لیے کی ہے میں ایسے خدا کا انکار کرتا ہوں۔کیونکہ میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ میرا خدا مجھے شراب پلاتا ہے۔میں یہ بھی نہیں مان سکتا کہ وہ میرے سے برائی کرواتا ہے۔ میں یہ بھی نہیں مان سکتا کہ اس نے مجھے ازاد پیدا نہیں کیا۔میں یہ بھی نہیں مان سکتا کہ اس نے مجھے با اختیار پیدا نہیں کیا۔
بی بی: ہر مذہبی انسان اپنے مذہب سے محبت کرتا ہے جیسے اپ کرتے ہو۔
اسامہ: بلکہ میرے خدا نے مجھے با اختیار ازاد پیدا کیا ہے۔اس نے مجھے خیر اور شر کا علم دیا ہے اور فیصلہ میرے پر چھوڑ دیا ہے کہ اس میں سے میں جو مرضی کام کروں۔میں جو کام کروں گا اس کی جزا یا سزا مجھے ملے گی اگر میں توبہ نہ کروں لیکن جتنے مرضی گناہ کر لوں اور اگر میں ایک دفعہ خدا سے سچے دل سے توبہ کر لوں تو وہ مجھے معاف فرما دے گا۔میرا خدا تو ایسا ہے جو جو رحم دل ہے جو مجھے پرفیکٹ پیدا کرتا ہے۔
بی بی: یہ اپ کی غلط فہمی ہے حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔باقی اپ کی مرضی ہے جو کچھ اپ کہہ رہے ہو۔
اسامہ: یہ واقعتا ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار میں نے نہیں کیا میرا اور اپ کا اختلاف خدا پر ہو رہا ہے اپ بلاواسطہ خدا کو ظالم کہہ رہی ہیں اور میں اسی چیز کا انکاری ہوں میں خدا کو ظالم نہیں کہہ سکتا۔اپ دوبارہ پہلے سوال دیکھ لیں کہ اپ کا سوال کیا ہے
بی بی: دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خدا کی رضا پر ہو رہا ہے
سولر سسٹم دن رات بارشیں یہ سب خدا کر رہا ہے۔اس کے علاوہ انسان کے اندر جو نو نو سسٹم ہیں وہ بھی خدا چلا رہا ہے۔انسان کے اندر تمام خصوصیات خدا نے رکھی ہے۔ظالم کو لفظ ہم خدا کے لیے استعمال نہ کریں کیونکہ وہ انسان نے ایجاد کیا ہے۔
اسامہ: بالکل نہیں لفظ ظلم شروع سے کسی نہ کسی معنی میں رائج رہا ہے۔ جو لوگ کفر یا شرک کرتے ہیں قران میں اللہ تعالی نے ان کو ظالم کہا ہے ظالم یعنی وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں
بی بی: میں خدا مانتی ہوں 100 فیصد لیکن میری نظر میں میرا خدا الگ ہے حقیقت میں خدا ایسا نہیں ہے جیسا مذہب سوچ رہا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اپ خدا کو مانتی ہیں۔ لیکن شروع سے لے کر اب تک میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپ خدا کی تعریف کیا لیتی ہیں ؟ اپ خدا کی تخلیق کو کیسے مانتی ہیں ؟ جیسے خدا کو سمجھنے کے لیے میں نے قران کا سہارا لیا اپ نے کہاں سے خدا کو سمجھا ؟ خدا اپنا پیغام انسانوں تک کیسے پہنچاتا ہے ؟
بی بی: حقیقت میں انسان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے میرے سوالات کا ابھی تک کسی نے جواب نہیں دیا جو لوگ مجھے جواب دیتے ہیں ان کا مجھے پہلے ہی پتہ ہوتا ہے۔
اسامہ: یہاں تک میں نے محسوس کیا ہے اپ کا سوال کوئی مشکل سوال نہیں ہے۔ لیکن ایک چیز پر اپ غور ضرور کیجئے گا کہ ہو سکتا ہے کہ اپ کو سوال ابھی صحیح طریقے سے کرنا نہ ا رہا ہو اگر اپ سوال کو صحیح انداز میں سمجھا لیتی ہیں تو ہو سکتا ہے رد الحاد گروپ میں ہی اپ کو اس کا جواب مل جاتا۔
بی بی: منطقی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں اپنا دماغ استعمال کرو۔
اسامہ: بی بی میں بھی دماغ کی ہی بات کر رہا ہوں کی منطقی دلیل کا تعلق منطق سے ہے اور منطق کا تعلق دماغ سے ہی ہے
بی بی: وقت دینے کے لیے بہت شکریہ۔یہ باتیں میں کسی کے ساتھ ڈسکس نہیں کرنا چاہتی۔اپ گروپ میں اگئے تو میں نے میسج کیا یہ موضوع یہیں ختم کریں بہت شکریہ۔
اسامہ: اگر اپ بحث کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں اس بحث کو مکالمے کی صورت میں شائع کرنا چاہتا ہوں اگر اپ کو اپ کے نام کے استعمال سے کوئی مسئلہ ہو تو میں اپ کا نام بدل سکتا ہوں۔ مزید یہ کہ اپ کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا اور کسی قسم کا کوئی سکرین شاٹ شیئر نہیں کیا جائے گا۔
شکریہ جزاک اللّٰه