ایک ملحد بھائی کا خدا پر اعتراض۔
اعتراض: ۔
اگر بحیثیت استاد آپ کو طالب علم کی پیدائش سے پہلے ہی علم ہے پیدا ہو کر یہ فیل ہو گا اور آپ اسکو بھڑکتے تندور میں جھونک دیں گے مگر تب بھی پیدا کروا کے اسکی آزمائش کریں آپکی استادی کی داد تو بنتی ہے۔
جواب:
السلام علیکم!
یہاں پر اپ سوال سیدھے طریقے سے کریں کہ مسئلہ تقدیر اپ کو سمجھایا جائے۔ معذرت کے ساتھ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اپ کو مسئلے تقدیر کی 100 فیصد سمجھ نہیں ہے۔اکثر اوقات ملحدین کی جانب سے کیے گئے اعتراضات اور شبہات کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کو مسئلہ تقدیر کا مکمل طور پر علم نہیں ہوتا۔اس میں ہمارے مسلمان بھائی بھی شریک ہیں کہ ان کو بھی کبھی کبھی مسئلہ تقدیر میں مسائل پیش اتے ہیں لیکن یہ ایک انسانی عقل ہے کہ کبھی کبھی اس کے لیے کچھ مسائل پچیدہ ہو جاتے ہیں جن کو سمجھنے کے لیے اس کو تھوڑی دیر ہو سکتی ہے۔
جب اپ سوال خدا کے حوالے سے کرتے ہیں تو اپ کو پہلے خدا کی تعریف کہ صحیح معنی میں سمجھ ہونی چاہیے۔اس کا علم اتنا قوی ہے کہ اس کو اپ کی اور میری اج ہونے والی گفتگو کا بھی پتہ تھا۔امتحان لیے بغیر کسی کو فیل کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔اس کو تو پتا ہے کہ کون فیل ہو رہا ہے اور کون پاس لیکن ہم کو تو نہیں پتہ یا فیل ہونے والے کو تو نہیں پتا؟ یا یہ کہیں کہ استاد ٹیسٹ لیے بغیر کسی طالب علم کو فعل کر دے اور اس کے فعل ہونے کے بعد اس کو سزا دیے۔ تو کیسا محسوس ہوگا طالب علم کو اور کلاس کو یقینا ان کو اس میں نہ انصافی نظر ائے گی کیونکہ استاد نے نہ تو ٹیسٹ لیا نہ نتیجہ دکھایا بس طالب علم کو مارنا شروع کر دیا۔نا انصافی یہ ہے۔
پیدا کرنے یا نہ کرنے میں وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہے۔اس نے اپ کو بہت اچھے طریقے سے سمجھایا دکھایا ثبوت بھی غالبا دیا ہوگا یا شاید اپ کو اس وقت عین الیقین بھی ہوا ہوگا تبھی تو اپ نے میرے ساتھ کہا تھا قالو بلیٰ۔ لہذا یہ شبہ بروز قیامت دور ہو سکتا ہے۔
اس نے پیدا کیا اس پر اعتراض تو ہے اپ کو اگر وہ پیدا نہ کرتا تو کیا اس پر اپ کو اعتراض نہ ہوتا؟ پھر کوئی یہ نہیں سوچ سکتا کہ اگر پیدا کرتا تو ہم یہ کر دیتے ہم وہ کر دیتے ہم امتحان میں پاس ہو جاتے۔اگر وہ ہمیں پیدا کرتا تو مزہ ا جاتا اگر وہ ہمیں پیدا کرتا تو ہم اس امتحان میں ٹاپ کرتے اگر وہ ہمیں پیدا کرتا تو طوفان لیا تے ہم اس کو راضی کر دیتے۔لہذا محترم جب کرنا ہی اعتراض ہو تو وہ کسی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
پھر اگر وہ سزا نہ دے اور سزا کو سرے سے پیدا ہی نہ کرتا تو جزا کیا ہوتی؟جزا کی ویلیو کیا ہوتی؟جنت تو ایک منزل ہوتی اس کے لیے محنت کون کرتا؟ کیونکہ اپ تو ایک سفر پر روانہ ہوتے جس میں نہ کوئی ازمائش ہوتی نہ امتحان ہوتا اخر میں اپ نے اپنی منزل پہنچنا تھا تو احسان کس چیز کا ہوتا ہے؟ فلسفیانہ انداز میں اگر اس کو سمجھا جائے تو میثال یہ کہ جب باپ ہی پیدا نہ ہوا تو بیٹا کہاں سے پیدا ہوتا۔یعنی جب باپ ہے ہی نہیں تو بیٹا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یعنی جب سزا ہے ہی نہیں تو جزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لہذا معاذ اللہ خدا کو سزا کے معاملے میں ظالم تصور کرنا سرا سر لاعلمی ہے۔
ایک بندہ ساری عمر قتل و غارت کرے شراب نوشی اور چوری ڈکیٹی کرے۔لوگوں کے حقوق سلبی کرے۔اور قیامت والے دن جنت میں بھی ہو۔واہ کیا انصاف ہوتا اور جو لوگ ساری عمر نہ قتل و غارت کرتے نہ شراب نوشی کرتے نہ چوری ڈکیٹی کرتے نہ لوگوں کے حقوق کی سلبی کرتے ساری عمر ازمائشوں میں سے گزر کر جنت کے حصول کے لیے محنت کرتے جب وہ ایسے لوگوں کو جنت میں دیکھتے تو کیا واقعی ان کے ساتھ انصاف ہوتا ہے؟
ہمارے ہاں ہمارے معاشرے میں اگر ایک انسان قتل کرے اور اس کو پولیس گرفتار نہ کرے۔اور اس قاتل کو بھی وہی پروٹوکول دے جو ایک مدعی کو مل رہا ہے تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ کوئی فرق نہیں صرف نا انصافی ہے۔
ایک دفعہ پھر لوٹ اتے ہیں سوال کے پہلے حصے کی جانب اگر اس کو پہلے ہی پتہ تھا تو اس نے یعنی پیدا کیوں کیا!
اس کو یہ بھی تو پتہ تھا کہ ملحدین مجھے گالیاں دیں گے لیکن اس نے پھر بھی پیدا کیا اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ لوگ فلسطین میں مساجد گرائیں گے لیکن اس نے پھر بھی ان کو پیدا کیا اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ عراق میں تین لاکھ مسلمان مارے جائیں گے لیکن اس نے پھر بھی قاتلین کو پیدا کیا۔اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ برما میں میرے ماننے والوں کو جلا دیا جائے گا اس نے پھر بھی ان کو پیدا کیا۔
۔اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ اپ اعتراض کرو گے اپ کو اس نے پھر بھی پیدا کیا۔اسے یہ بھی پتہ تھا کہ بوسنیا میں میرے ماننے والوں کے ساتھ کیا ہوگا اس نے پھر بھی ان کے قاتلین اور مقتولین دونوں کو پیدا کیا۔اسے پتہ تھا جوزف سٹائلن عیسائیوں کے ساتھ کیا کرے گا اس نے اسے پھر بھی پیدا کیا۔اسے پتہ تھا ہٹلر یہودیوں کے ساتھ کیا کرے گا اس نے اسے پھر بھی پیدا کیا۔
اور اس نے پیدا ان سب قاتلین کو اس لیے کیا کہ بروز قیامت وہ ان کو بتا سکے کہ تم کو سزا کیوں مل رہی ہے۔
نہ جوزف کو کسی نے زبردستی کہا کہ وہ قتل کرے نبوش کو کسی نے زبردستی ہاتھ پکڑ کر سائن کروائے کہ جاؤ اور عراق میں تین لاکھ مار دو نہ ہی بوسنیا میں قتل عام کے لیے خدا نے حکم دیا تو جس نے جو کیا ہے وہ بھگتے گا چاہے وہ ایک گنہگار مسلمان ہو یا ایک بہت بڑے پائے کا ملحد۔
احسان اس کا ہے کہ اس نے یہ سب جانتے ہوئے بھی پیدا کیا۔
اللہ پاک اپکو۔ ہدایت دیں۔ آمین۔