اخلاقیات کا ماخذ

اخلاقیات کا ماخذ

اخلاقیات کا ماخذ

اخلاقیات کا ماخذ

ایک مذہب بیزار کی تحریر کا جواب

مفتی سید فصیح اللہ شاہ

سوال:

ایک سوال مذہبی حضرات کی طرف سے اکثر زیر گردش رہتا ہے کہ ملحدین اگر کسی الہامی مذہب کو نہیں مانتے تو ان کی اخلاقیات کا ماخذ کیا ہے؟؟

اور کن اصولوں کی بنیاد پر وہ کسی فعل کو غلط یا درست سمجھتے ہیں؟

اور اگر ان کے نزدیک حلال وحرام گناہ و ثواب کا کوئی مذہبی کنسیپٹ نہیں تو وہ پھر اپنی زندگی کن اصولوں پر رہ کر جیتے ہیں؟؟

اور ماں بہن بیٹی سے سیکس کیوں نہیں کرتے یا پھر کتے ،مینڈک، سانپ چوہے ،بلیوں سمیت دوسرے جانداروں کا گوشت کیوں نہیں کھاتے وغیرہ وغیرہ وغیرہ

جواب:

پہلی بات:

ان سوالوں کا آج تک کسی ملحد نے معقول جواب نہیں دیا اور نہ کوئی ملحد دے سکتا ہے البتہ اپنے تیئں کچھ بکھرے خیالات لکھ کر ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن آج تک ان ملحدوں کا ضمیر ان سوالات کی وجہ سے مضطرب ہے

اب یہاں سے اس تحریر کا ترکی بترکی جواب ملاحظہ کریں

اہم سوال یہ ہے کہ اخلاقیات یا زندگی جینے کے اصولوں کا ماخذ کیا الہامی مذہب ہے؟؟

اس کا جواب ہے”جی ہاں”!

کیونکہ

یہ بات ہر طرح سے پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ الہامی مذاہب کا خدا ہی کائنات کا خالق و مالک ہے اس لیے اخلاقیات کو الہامی مذہب کے خدا کی طرف منسوب کرنا ہی عقل و شعور کا تقاضا ہے

رہی بات اخلاقیات یا اصولوں کی تو ان سب کیلئے انسان ہمیشہ خدا یا مذہب کی طرف محتاج رہا ہے الہامی مذاہب میں اخلاقیات کسی ایک ہی آسمانی خدا کی طرف سے ہوتی ہیں البتہ خالق و مالک حکیم ذات بھی ہے اس لیے زمان و مکان کے اختلاف کی رعایت رکھتے ہوئے مختلف تہذیبوں کی اخلاقیات اور اصولوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق تو کہیں نہیں البتہ تھوڑا سا فرق ضرور رکھا جو عین حکمت ہے۔۔۔۔

جیسے کزن میرج بعض مذاہب میں حرام سمجھی جاتی ہے اسلام میں حلال ہے جس سے محمدی شریعت کی امتیازی خصوصیت ثابت ہوتی ہے کہ اسلام اگرچہ روز اول سے چلا آ رہا ہے مگر خاتم الانبیاء کی کچھ خصوصیات بھی ہیں جن میں سے ایک یہ حکم بھی ہے، رہی بات سائنس کی تو شرعی احکام سائنسی بنیادوں پر نہیں ہوتے بلکہ اخلاقی اور الہی قوانین اور طاعت کی بنیاد پر ہوتے ہیں لہذا اس کے لیے سائنسی معلومات کو زیر بحث لانا عقلمندی نہیں ہے

جہاں تک کزن میرج کے نقصانات کی بات ہے وہ اتنی اہم نہیں جتنی اہم باور کروائی جاتی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر مسیحی سائنسدانوں کی آراء ہیں جنہوں نے اپنے مذہب کی تائید میں ایسی باتیں ذکر کر دیں ورنہ تھوڑی بہت اگاہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کزن میرج میں معذوری کے کچھ فیصد چانسز زیادہ ہوتے ہیں اس لیے غیر کزن میرج میں بھی آج لاکھوں معذور بچوں کی پیدائش عام بات ہے

ہندو مذہب میں گائے کو مقدس ماننا جہالت کا شاخسانہ ہے، نہ کہ مذہبی تعلیمات، اس لیے مسلمانوں سمیت دوسرے بیشتر ہندو بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں مسلمان اور یہودی عیسائی خ۔ن۔زیر کا گوشت حرام سمجھتے ہیں مگر جو لوگ اس کا گوشت کھاتے وہ کسی حلال و حرام کے تصور کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہوائے نفس کی بنیاد پر عادت پڑ گئی ہے جو اپنے آپ میں غیر اخلاقی ضرور ہے مگر خراب عادت و رواج کی وجہ سے بعض کو اس کا احساس نہیں ہوتا لہذا اس کو ان کا اخلاق قرار دینا علم و عقل کے خلاف ہے

یہی وجہ ہے چونکہ حلال وحرام اور اخلاقیات ایک خدا کی طرف سے ہیں اس لیے ان میں زیادہ تضاد نظر نہیں آتا یہ معمولی فرق ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اخلاقیات کا ماخذ مذہب ہے جو حکیم ذات کی طرف سے انسانی ضروریات کو مد نظر رکھ کر رکھا گیا مختلف علاقوں میں رہنے والے انسانوں کی ضرورت کے حساب سے اخلاقیات اور اصول تھوڑے سے فرق کے ساتھ نازل ہوتے رہے۔۔ اور وقت کے حساب سے ان میں تبدیلی کی گئی۔

جیسے زمانہ جاہلیت میں غلامی کو بالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اسلام نے غلامی کو بتدریج ختم کر دیا

بعض قبائل میں اپنی توہم پرستی کی بنا پر حیض کے ایام میں عورت کو نجس تصور کیا جاتا تھا ہندو دھرم میں تو ان ایام میں عورت کا کھانا پینا تک الگ کر دیا جاتا اور ہندو دھرم میں تو بیوہ عورت کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور کوئی اس سے شادی تو دور کی بات اس کو شادی بیاہ میں بلانا بھی نحوست مانا جاتا تھا

مگر اسلام نے یہ اخلاقی اصلاح فرما کر دی ہے کہ ان ایام میں عورت کو نہ ہی منحوس سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی بیوہ سے شادی وغیرہ کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہاں نحوست ہونے نہ ہونے کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں یہ رہنمائی صرف مذہب ہی کر سکتا ہے

مذہب نہ ماننے والے سائنس سے اس کی کوئی توجیہ نہیں بتا سکتے

اب آخر میں ایتھیسٹ کی بات کریں تو ایتھیسٹ جس تہذیب میں جنم لیتے ہیں ان کے اندر کچھ نفسیاتی عوارض یا ادھوری معلومات کی وجہ سے کچھ غلط فہمیاں پروان چڑھتی ہیں اسلام ترک کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہیں ممکن ہے بعض منکرین مذہب ملحدین ساری زندگی شراب یا حرام گوشت کے قریب تک نہ بھٹکیں مگر اکثر نفسانی خواہشات جیسے شراب خوری، حرام کمائی زنا وغیرہ کی خاطر مذہب بیزار ہو جاتے ہیں۔

اگر کوئی چینی کلمہ پڑھ لے اور بتایا جائے کہ اسلام میں چوہا حرام ہے وہ پھر کبھی چوہا نہیں کھا پائے گا اسے گھن آئے گی

اسی طرح کسی ہندو کو جو کہ سبزی خور ہو اگر مسلمان ہونے کے بعد گائے کا گوشت کھلانا چاہیں اور وہ سمجھ چکا کہ گوشت نہ کھانا توہم پرستی ہے تو وہ خوشی خوشی کھا لے گا ۔۔۔

ایکس مسلم یا ایتھیسٹ شکل و صورت میں انسانوں کی طرح ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ بہت سی ایسی باتیں نہیں جان پاتے ہیں جو عام مسلمان بھی جان جانتا ہے اس لیے ہر نارمل مسلمان کو ان کے سوالات پر ہنسی آتی ہے

سوچیں ! مذہب بیزار آپ ہی طرح کے ہوتے ہیں کوئی آپ کا بھائی ہے، کوئی بہن، کوئی بیٹا، کوئی بیٹی، کوئی دوست، کوئی استاد، تو کوئی سکول ٹیچر، تو کوئی ڈاکٹر، کوئی نرس، تو کوئی درزن، کوئی جج، تو کوئی گلی محلے کی صفائی کرنے والا جمعدار ان سے نفرت نہ کریں بلکہ ان کی بیماری جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کونسی نفسیاتی عوارض ہیں جن سے آپ لاعلم ہیں اور ایتھیسٹ ان میں عذاب کی طرح مبتلا ہیں۔۔

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles