آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات 

آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات 

آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات

آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات

اشکال : کفار اور فساق اللہ کے احکامات کی نافرمانی بھی کرتے ہیں اور بظاہر دنیا میں خوش باش بھی نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ سورہ طہ کی آیت میں اسکے برخلاف ہے ۔اسی طرح بعض مومنین کی دنیاوی زندگی بڑی تنگ نظر آتی ہے حالانکہ آیت کے رو سے انکو خوش خرم رہنا چاہیے تھا۔۔۔

جواب

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏ ۞

ترجمہ:

اور جس نے منہ پھیرا میری یاد سے تو اس کو ملنی ہے گزران تنگی کی اور لائیں گے ہم اس کو دن قیامت کے اندھا

تفسیر:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ ، یہاں ذکر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک بھی جیسا کہ دوسری آیات میں ذکراً رسولاً آیا ہے

دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا رسول سے اعراض کرے یعنی قرآن کی تلاوت اور اس کے احکام پر عمل سے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے اعراض کرے اس کا انجام یہ ہے کہ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى یعنی اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں اس کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔ پہلا عذاب دنیا ہی میں اس کو مل جائے گا اور دوسرا یعنی اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا۔

کافر اور بدکار کی زندگی دنیا میں تلخ اور تنگ ہونے کی حقیقت

یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کے لئے مخصوص نہیں، مؤمنین صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا کی زندگی میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ صحیح بخاری اور تمام کتب حدیث میں روایت سعد وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیاء پر سخت ہوتی ہیں

ان کے بعد جو جس درجہ کا صالح اور ولی ہے اسی کی مناسبت سے اس کو یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عموماً کفار و فجار کو خوشحال اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے تو پھر یہ ارشاد قرآنی کہ ان کی معیشت تنگ ہوگی آخرت کے لئے تو ہوسکتا ہے دنیا میں خلاف مشاہدہ معلوم ہوتا ہے۔

اسکا جواب یہ ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے تنگی معیشت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ان سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جاوے گا اور حرص دنیا بڑھا دی جاوے گی (تفسیر مظہری)

جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت جمع ہوجائے کبھی قلبی سکون اس کو نصیب نہیں ہوگا ہمیشہ مال بڑھانے کی فکر اور اس میں نقصان کا خطرہ اس کو بےچین رکھے گا۔ اور یہ بات عام اہل تمول میں مشاہد و معروف ہے جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس سامان راحت تو بہت جمع ہوجاتا ہے مگر جس کا نام راحت ہے وہ نصیب نہیں ہوتی کیونکہ وہ قلب کے سکون و اطمینان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔

 

آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات 
آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات

(معارف القرآن)

حرام مال کی نحوست اور بے برکتی مراد ہے :

حافظ سیوطی متوفی 911 ھ لکھتے ہیں :

امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے ہر وہ مال جو میں اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو دیتا ہوں خواہ وہ کم ہو یا زیادہ وہ اس میں میری اطاعت نہ کرے تو اس میں کوئی خیر نہیں اور وہی معیشت میں ضنک (تنگی) ہے۔

امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے جب اللہ کسی بندہ کو رزق میں وسعت دے اور وہ اپنی معیشت کو حرام کرلیتا ہے تو اللہ اس کے لئے دوزخ کی آگ میں تنگی کردیتا ہے۔ امام ابن جریر نے روایت کیا ہے یہ وہ معیشت ہے جس میں حرام کی وسعت ہو۔

امام ابن ابی حاتم نے مالک بن دینار سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا، اللہ اس کا رزق حرام میں کردیتا ہے اور اس کو تادم مرگ حرام کھلاتا ہے حتیٰ کہ وہ مرجاتا ہے پھر اس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔

امام عبدبن حمید اور امام ابن ابی حاتم نے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے اس سے مراد برے عمل اور رزق خبیث ہے۔ الدرالمنثور ج ٥ ص 609، (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٧ ص 2440)

آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات 
آیات قرآنیہ پر پیش کردہ اشکالات کے جوابات

عذاب قبر مراد ہے :

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے کہ قبر میں ان کی معیشت تنگ کردی جاوے گی۔ خود قبر جو ان کا مسکن ہوگا وہ ان کو ایسا دبائے گا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسند بزار میں بسند جید حضرت ابوہریرہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس آیت کے لفظ مَعِيْشَةً ضَنْكًا کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مراد قبر کا عالم ہے۔ (مظہری)

ایک بہترین توضیح یہ بھی ہو سکتی ہے :

ھو الضیق فی احوال الدین ، فقال ابن عباس رضی اللہ عنہما المعشیة الضنک ھی ھی ان تضیق علیہ ابواب الخیر فلا یہتدی لشی منہا ( کبیر )

یعنی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے لیے خیر اور ہدایت کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں جس کے بعد وہ کسی چیز سے ہدایت نہیں پا سکتا یعنی قبول ہدایت میں تنگی ، اور چونکہ موضوع کا اصل موضوع ہی ہدایت ہے اس وجہ سے معاشی تنگی قبر و غیرہ کی تنگی کے بجائے یہاں ہدایت کی تنگی مراد لینا زیادہ بہتر ہے ۔

اس کے علاوہ ماجدیؒ نے اسے قلب کی تنگی سے تعبیر سے کیا ہے فرماتے ہیں

” انسان ساری عمر مال کی طلب ، جاہ کی حرص ، ترقی کی فکر و ہوس وغیرہ میں ، نقصان اور کمی کے غم و اندیشہ میں گھل گھل کر گزارے یعنی کسی صورت میں صاحب مال ہوتے ہوے بھی اسے پل بھر کا سکھ اور چھین نصیب نہ ہو لہذا یہاں مراد قلب کی تنگی اور بے سکون زندگی ہے جیسا کہ ہم خبروں میں بڑے بڑے سرمایہ داروں دولتمندوں اور خوشحال لوگوں کی خودکشی اور ڈیپریشن کی خبریں سنتے ہیں ۔

اس کے علاوہ شعراوی لکھتے ہیں

اما غیر المومن فحینما تضیق بہ الاسباب و تعجزہ لایجد من یلجا الیہ فینتحر

یعنی کہ ان پر اسباب کی تنگی ہو جاتی ہے اور اس صورت میں اس کا کوئ یار و مدد گار نہیں ہوتا جس کی طرف وہ رجوع کرے تو اسی ضیق قلبی کے بنا پر وہ ڈیپریشن اور پریشانیوں میں مبتلاء ہو جاتا ہے ۔

واللہ اعلم

خلاصہ یہ نکلا کہ جو ذکر وتقوی سے اعراض کریگا وہ سکون قلبی سے محروم رہے گا سکون قلبی سے محروم رہنے کا ایک بڑا سبب دینی امور میں ہدایت نہ پانا بھی ہے۔ یہی کچھ معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے

Share
Share
Share
Share
Share

More News and Articles